ایک دن مجذوب نے خود جاکر وہ سونا بیچااور اس کی رقم لاکر آپؒ کو دی۔(ایضا ۵۲ تغیر کے ساتھ)
حضرت تھانویؒ کی گھڑی پر نظر
حضرت ڈاکٹر عبد الحی ؒ اپنے شیخ حضرت تھانوی ؒ کے متعلق فرماتے ہیں:
حضرت ؒ کو وقت کی ۙبڑی قدر تھی، معلوم ہوتا تھا کہ اللہ تعالی نے ان کی فطرت ہی میں وقت کی اہمیت کو مضمر کردیا تھا، وقت کے ایک ایک لمحے کو صحیح اور برمحل استعمال کرنے کا اس قدر اہتمام تھا کہ ہر وقت ان کی نظر گھڑی پر رہتی تھی، اور نہایت ہی سہولت اور بے تکلفی سے نظام الاوقات کے تحت ہر کام کو انجام دیتے تھے ۔ (متاع وقت ۹۵)
حضرت تھانوی ؒ مرض الموت میں تھے، طبیبوں نے آپ کو بات کرنے سے منع کردیا تھا، اس وقت بھی آپ ؒ بعض اصحاب کو باری باری بلاتے اور ان کو کوئی کام یا کوئی ذمہ داری سپرد فرماتے، آپ سے عرض کیا گیا کہ طبیبوں کے منع کرنے پر بھی آپ لوگوں سے باتیں کرتے رہتے ہیں، آپؒ نے فرمایا بات تو تم ٹھیک کہتے ہو، لیکن میں یہ سوچتا ہوں کہ وہ لمحات زندگی کس کام کے جو کسی کی خدمت میں صرف نہ ہو، اگر کسی کی خدمت کے اندر عمر گذر جائے تو یہ خدا کی نعمت ہے۔
حضرتؒ خود فرماتے ہیں کہ مجھے انضباط اوقات کا بچپن ہی سے بہت اہتمام ہے، جو اس وقت سے لے کر اب تک بدستور موجود ہے، میں ایک لمحہ بھی بیکار رہنا برداشت نہیں کرتا۔
حضرت میاں جی نور محمدؒ اور وقت کی قدر
حضرت میاں جی نور محمدؒ جنجانوی کا یہ حال تھا کہ جب بازار میں کوئی چیز خریدنے جاتے تو ہاتھ میں پیسوں کی تھیلی ہوتی، اور چیز خریدنے کے بعد خود پیسے گن کر دکاندار کو نہیں دیتے تھے ، بلکہ پیسوں کی تھیلی اس کے سامنے رکھ دیتے، اور اس سے کہتے کہ تم خود اس میں سے پیسے نکال لو، اس لئے کہ اگر میں نکالوں گا اور اس کو گنوں گا تو وقت لگے گا، اتنی دیر میں سبحان اللہ کئی مرتبہ کہہ لوںگا۔