بقدرِ ہمت اہداف کا تعین
’’زندگی کی قدر ‘‘ یہ ایک ایسا لفظ ہے جس کے معنی میں بہت ہی گنجائش اور وسعت ہے، جن افراد پر وہ صادق آتا ہے ان میں باہم اتنا تفاوت ہے جتنا زمین و آسمان میں ، اور اتنی دوری ہےجتنی مشرق و مغرب میں، اصطلاحی زبان میں کلی مشکک ہی کہہ دیجئے، جیسے سفیدی ایک حقیقت ہے لیکن اس کے افراد میں واضح فرق ہوتا ہے،جیسے ایک کیلو سونا بھی سونا ہے، اور ایک ٹن سونا بھی سونا ہے، لیکن دونوں کی مالیت میں فرق کسی سے مخفی نہیں ہے، یا یوں سمجھئے کہ لوہا بھی ایک دھات ہے، سونا بھی ایک دھات ہے لیکن اگر کسی کے سامنے دونوں چیزیں رکھی جائے اور کسی ایک کے لینے کا اختیار دیا جائےتو کیا وہ یہ کہہ کر لوہے پر قناعت کرے گا کہ یہ بھی تو ایک دھات ہے، پنچگانہ فرائض کا باجماعت اور سنن و نوافل کے ساتھ اہتمام کرنا، ان کے بعد تسبیحات کی پابندی کرنا، دن میں ایک پارہ تلاوت کرنا، اور صبح و شام کی تسبیحات مکمل کرنا، یہ مجموعہ بھی’’ زندگی کی قدر ‘‘میں شامل ہے، اور ’’زندگی کی قدر ‘‘میں یہ بھی شامل ہے کہ مذکورہ بالا عبادتوں کے ساتھ تہجد، اوابین ، اشراق اور چاشت کا اہتمام کرنا، دن میں تین پارے تلاوت کرنا، تعلیم و تعلم میں ، تربیت و تزکیہ میں بھی کچھ وقت لگانا، اور ’’زندگی کی قدر ‘‘ کا ایک فرد یہ بھی ہے کہ پورے دن دل و دماغ میں عبادت، آخرت کی فکر اور رضائے الہی کی طلب کے خیالات گردش کرتے ہوں، ایک عمل سے فارغ ہوکر دوسرا عمل شروع کردیا، نماز سے فراغت پاکر تلاوت ، اس سے فارغ ہوکر اذکار، ان کو مکمل کرکے قرآن و حدیث اور شریعت و سنت کی تحصیل اور فہم میں مشغول ہوگیا، رات کو ذرا لمبا ہوا تو اس لئے کہ اخیر رات میں اچھی طرح عبادت ہو، اللہ کے سامنے قیام میں شوق و ذوق باقی رہے، کھانا کھایا تو اسی لئے کہ عبادت و بندگی کے حقوق کی ادائیگی ممکن ہو، یہ تمام صورتیں ’’زندگی کی قدر‘‘ میں شامل ہیں۔
جب لوگوں میں ’’زندگی کی قدر‘‘کا جذبہ بیدار ہوتا ہے یا بیدار کیا جاتا ہےاس وقت اپنی