ضروریات کے ساتھ بھی مشغولی
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کے دادا مجد الدین ابن تیمیہؒ کواپنے اوقات کی اتنی قدر تھی کہ جب قضائے حاجت کے لئے بیت الخلاء میں جاتے تو جتنی دیر بیت الخلاء میں رہتے اتنی دیر کے لئے بھی وقت کا ضائع ہونا آپ کو گوارا نہیں تھا، اور بیت الخلاء میں بیٹھ کر تو کوئی کام نہیں کیا جاسکتااس لئے آپ نے وقت کی حفاظت کے لئے یہ صورت نکالی تھی کہ آپ کسی شاگرد سے فرمادیتے :اقرأ فِي هذَا الكتاب، وارفع صوتك حَتى أسمع.(اس کتاب میں دیکھ کر پڑھتے رہنا، اور بلند آواز سے پڑھنا تاکہ میں سن سکوں)۔ (ذیل طبقات الحنابلۃ لابن رجبؒ)
عبید بن یعیش ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے تیس سال تک اپنے ہاتھ سے کھانا نہیں کھایامیں حدیث لکھتا رہتا اور میری بہن لقمے بنا کر کھلاتی رہتی تھی، یہ معمول تیس سال تک رہا۔
امام ثعلب نحویؒ کا یہ حال تھا کہ آپ کو اگر کوئی کھانے کی دعوت دیتا تو اس شرط پر دعوت قبول کرتے تھے کہ آپ کے یہاں مطالعہ کرنے کے لئے مجھ کو جگہ دینی پڑے گی، اور جتنی دیر تمہارا کھانا تیار ہوگا میں مطالعہ کرتا رہوں گا۔ آپ کی وفات بھی اسی علمی مشغولی کی وجہ سے ہوئی، آپ راستہ چلتے ہوئے کتاب کے مطالعے میں مشغول تھے کہ ایک گھوڑے نے آپ کو ٹھوکر ماری، یہ حادثہ آپ کی موت کا سبب بنا۔(قيمة الزمن عند العلماء)
حاکم شہیدؒ صاحبِ مستدرک ان کے پاس لوگ ملنے کے لئے آتے تھے تو وہ اپنی لکھائی جاری رکھتے تھے ، اوراس سے کہتے تھے کہ بھئی آپ بات کرتے رہو میں آپ کی بات بھی سنتا رہوں گا، اس طرح ایک وقت میں دو کام کیا کرتے تھے۔ (خطبات فقیرؒ)
ابو حاتم رازی ؒ کے صاحب زادے عبد الرحمن رازی ؒ فرماتے ہیں : کبھی ایسا ہوتا کہ والد صاحب کھانا کھا رہے ہیںاور میں ان سے پڑھ رہا ہوں،وہ راستہ چل رہے ہیں اور میں ان سے