بڑے اعمال سامنے آجائیں گے)‘‘۔
آدمی اپنا محاسبہ کرتے ہوئے زندگی کے ایام شمار کرے تو حقیقت سامنے آئے گی کہ اس نے بے شمار دن غفلت و معصیت میں نکال دیئے، اور اس کے پاس اتنے سارے دنوں کا کوئی حساب نہیں ہےجو کل اللہ کے سامنے پیش کرسکے، ابوبکر کتانی ؒفرماتے ہیں کہ ایک آدمی اپنے نفس کا محاسبہ کیا کرتا تھا، ایک دن اس نے اپنے زندگی کے ایام شمار کئے تو بیس ہزار پانچ سودن ہوئے ، یہ دیکھ کر ایک چیخ ماری اور بے ہوش ہوگیا، جب ہوش آیا تو کہنے لگا: ہائے افسوس! میں اپنے رب کے پاس بیس ہزار پانچ سو گناہ لے کر جاؤں گا (اگر روزانہ کا صرف ایک گناہ شمار کیا جائے) پھر کہنے لگا: مجھ پر افسوس ہے کہ میں نے دنیا تو آباد کی لیکن آخرت کو ویران کر دیا، اب مجھے بغیر اعمال اور ثواب کے کیسے حساب و کتاب اور عذاب و عتاب کے گھر کی طرف جانے کی کیسے خواہش ہوگی۔
حضرت علی ؓ کا فرمان
آج کام ہی کام ہے، عمل کا موقع ہے، اگر عمل میں کوتا ہی ہوئی تو اس پر آج کوئی بازپرس نہیں ہوگی ،لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ آزادی ہمیشہ رہے گی، ابھی سب کچھ لکھ کر محفوظ کیا جارہا ہے، حساب کا دفتر اس وقت کھلے گا جب کہ حساب کتاب سے سامنے آنے والی کمی کو مکمل کرنے کا موقع ہاتھ سے نکل چکا ہوگا،حضرت علی بن ابی طالبؓ فرماتے ہیں:
إِنَّ الْيَوْمَ عَمَلٌ وَلَا حِسَابٌ وَغَدًا حِسَابٌ وَلَا عَمَلٌ ۔(الزہد الکبیر)
’’بے شک آج عمل کا موقع ہے، حساب کچھ نہیں ، کل حساب ہوگا اور وقت ِعمل نہیں‘‘۔
حضرت ابن مسعود ؓ کا گرانقدر ارشاد
إِنكُمْ فِي مَمرِّ الليلِ وَالنهارِ، في آجال منقوصةٍ، وأعمالٍ محفوظةٍ، والْموْتُ يأتِي بغتةً، فَمنْ زَرعَ خَيْرًا يُوشِكُ أَنْ يَحصُدَ رَغْبةً، ومن زرعَ