کرنے کی مشین کا نام ہے، نہیں ہرگز نہیں، انسان کی زندگی کا مقصد بہت بلند ہے، خوردن و خفتن تو بہائم کا طرز زندگی ہے،
نَهَارُكَ يَا مَغْرُورُ سَهْوٌ وَغَفْلَةٌ
وَلَيْلُكَ نَوْمٌ وَالرَّدَى لَكَ لَازِمُ
وَتَعْمَلُ فِيمَا سَوْفَ تَكْرَهُ غِبّهُ
كَذٰلِكَ فِي الدُّنْيَا تَعِيشُ الْبَهَائِمُ
’’اے فریب خردہ انسان!تیرا دن سہو اور غفلت میں گذرتا ہے، اور رات نیند میں، اس حال میں تیرے لئے ہلاکت ضروری ہوچکی ہے، تو ایسے کاموں میں لگا ہوا ہے جن کا نتیجہ عنقریب تجھے برا لگے گا، تیرا جو یہ طرز زندگی ہے اس طرح تو دنیا میںجانور زندگی گزارا کرتے ہیں‘‘۔
فراغت بھی عیب ہے
حضرت عمرفاروقؓ کوبیکاری پسند نہیں تھی، آپؓ فرماتے ہیں:
إني لاكره ان ارى احدكم سبهللا (فارغا)لا في عمل دنيا ولا في عمل آخرة
’’میں ناپسند کرتا ہوں کہ تم میں سے کسی کو فارغ دیکھوں، وہ نہ دنیا کے کام میں مشغول ہو اور نہ آخرت کے کام میں مشغول ہو‘‘۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ اپنا یہی خیال ظاہر کرتے ہیں:
إني لابغضُ الرجلَ فارغًا ليسَ في شيء منْ عملِ الدنيا ولا من عَملِ الاخرةِ
’’ میں ایسے فارغ اور بےکارآدمی کو نا پسند کرتا ہوںجو نہ دنیا کےکسی کام میں مشغول ہو اور نہ اعمال آخرت میں مصروف ہو‘‘۔
حضرت مالک بن دینار ؒاکثر فرمایا کرتے تھے : مَنْ عَرفَ اللہ فهوَ في شغلٍ شاغلٍ، ويل لمنْ ذهبَ عمرُهُ بَاطِلًا۔ (العمر والشيب)’’جس نے اللہ تعالی کو پہچانا وہ کسی مفید کام میں مشغول رہتا ہے، ہلاکتی ہے اس شخص کے لئے جس کی عمر بیکار چلی جائے‘‘۔