شان یہ ہوتی ہے کہ سمندر پی کر بھی پیاس نہیں بجھتی ، بے قرار ی کا یہ عالم کہ پورے دن کی مشغولی بھی اس کی بے چینی کو تسکین کا سامان فراہم نہیں کرسکتی۔
’’زندگی کی قدر‘‘ کے لئے ہم جس منزل کا انتخاب کریں اس میں اپنی علوّ ہمت کا ثبوت دیں، کیوں کہ معمولی منزل پر قناعت کرنا ،چند قطروں سے مست ہوجانا، تھوڑے بہت اعمال پر مطمئن ہوجانا اپنی موجودہ حالت پر قرار آجانا جواں مردوں کے لئےعار ہے۔
قناعت نہ کر عالمِ رنگ و بو پر
چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں
اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں
بہترین نمونہ
ہمارے لئے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ مناسب کونسا نمونہ ہوگا، آپﷺ کی بلند ہمتی اور اللہ تعالی کی تعلیم دیکھئے، اللہ تعالی نے اپنے پیارے رسول کو حکم فرمایا:
فاذا فرغت فانصب والی ربک فارغب۔
’’پس جب آپ فارغ ہوجائیں تو محنت کیجئے، اور اپنے رب کی طرف رغبت کیجئے‘‘۔
دعوت و تبلیغ کے فرائض اور رسالت کی ذمہ داریاں کچھ کم نہ تھیں، پورے دن کی فکری اور عملی قوتیں بندگان خدا کو راہ راست پر لانے اور ان کو شریعت کے مزاج و مذاق سے واقف کرنے اور تعلیم و تربیت اور دعوت و تبلیغ کی راہ میں پیش آنے والے موانع کو رفع دفع کرنے کے لئے لگتی تھیں، ایک بالکل جاہل بلکہ انسانیت سے بھی عاری قوم کو ایک سماوی دین کا علمبردار بنانا اور دیگر قوموں کے لئے ایک مکمل اور معیاری نمونہ تیار کرنا جس مشقت اور مجاہدے کا متقاضی ہے وہ کسی سے مخفی نہیں،اس قدر مشقت اور تکان کے باوجوداللہ تعالی نے آنحضرت ﷺ کو حکم فرمایا ہے کہ