ہوں ،اور مجھ میں جو کچھ بھی عمل کیا جائے گا میں اس پر گواہ رہوںگا،اور اگر آج میراسورج غروب ہو گیا تو میں قیامت کے دن تک تمہاری طرف لوٹ کر نہیں آؤںگا‘‘۔
اور یہ دن چوبیس گھنٹے آدمی کے پاس مہمان رہ کر جب رخصت ہوتا ہے اس وقت یا تو تعریف کرکے نکلتا ہے یا برائی کرکے نکل جاتا ہے، آپ ؒ نے فرمایا:
نَهَارُك ضَيْفُك فَأَحْسِنْ إلَيْهِ فَإِنَّك إنْ أَحْسَنْت إلَيْهِ ارْتَحَلَ بِحَمْدِك وَإِنْ أَسَأْت إلَيْهِ ارْتَحَلَ بِذَمِّك وَكَذَلِكَ لَيْلُك۔
’’تیرا دن تیرا مہمان ہے ، تو اس کے ساتھ اچھا سلوک کر، کیوں کہ اگر تو اچھا سلوک کرے گا تو وہ تیری تعریف کرتا ہوا رخصت ہوگا، اور اگر تو اس کے ساتھ برا معاملہ کرے گا تو وہ تیری مذمت کرتے ہوئے رخصت ہوگا، یہی حالت رات کی ہے‘‘۔
کل کا دن واپس نہیں آئے گا
آج کا دن نکلنے کے لئے کمر بستہ ہے، جب یہ ایک مرتبہ نکل جائےگا تو پھرکبھی واپس نہیں آئے گا، البتہ صحیح استعمال کی صورت میں اس کا نفع باقی رہے گا،
مضى امسُك الماضي شهيدًا معدَّلًا
وأعقبهُ يوم عليكَ شھیدُ
فان كنتَ اقترفْتَ بالامس اساءةً
فثنِّ باحسان وانت حميدُ
فيومك إن اتعبتهُ عاد نفعُه
عليكَ،وماضي الامسِ ليس يعودُ
ولا ترجِ فعل الخير يوما إلى غد
لعل غدًا يأتي وأنتَ فقيدُ
’’گذشتہ کل نکل گیا تجھ پر ایک معتبر گواہ بن کر،اس کے پیچھے آج کا دن آیا ہے وہ بھی تجھ پر گواہ ہوگا، اگر کل تونے کوئی برائی کی ہے تو آج نیکی کرکے قابل تعریف بن جا، کیوں کہ اگر تو آج کے دن کو مشقت میں ڈالے گا تو کل اس کا نفع مل جائے گا، اور گیا ہوا کل واپس نہیں لوٹے گا، کسی