کمال کی حرص
کمال کی حرص بھی بسا اوقات عمل سے مانع بنتی ہے، آدمی یہ سوچتا ہے کہ میں اسی وقت عمل کا آغاز کروں گا جب میرے لئے عمل کو تمام نقائص سے بچاتے ہوئے کمال تک پہنچانے کی گنجائش ہوگی، پس اگر طبیعت میں سستی ہے، یا اسباب پورے مہیا نہیں ہیں، یا ذہن منتشر ہے ، یا اور کوئی ایسی رکاوٹ ہے جس کے ہوتے ہوئے آدمی عمل میں لگ تو سکتا ہے لیکن اس عمل کو بہ حسن و خوبی انجام تک نہیں پہنچا سکتا، ایسے موقع پر وہ شخص عمل کے لئے آمادہ نہیں ہوتا جو ہمیشہ کمال کی حرص کرتا ہے ، ایسے لوگ کبھی اپنا عندیہ ظاہر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ’’ جی میں یا تو کام میں لگتا ہی نہیں، اور جب لگتا ہوں تو اس کو اچھے طریقے سے انجام دیتا ہوں‘‘ ، اس کا مطلب یہ ہوا کہ میں اسی وقت سفر کرتا ہوں جب سواری بہت تیز رفتار ہو، اور اگر سست رفتار ہو تو میں سفر روک دیتا ہوں، بتائیے! یہ مسافر اپنا نقصان کررہا ہے یا نہیں، پھر جس کو اکثر سست رفتار سواری ملے،اور تیز رفتار کبھی کبھی مل جائے اس کے لئے یہ اصول کس قدر ضرررساں ہوگا، اگر نفس پر قابو نہ کیا جائے تو یہ سواری سست رفتار ہی ثابت ہوگا، پس کامل کی حرص میں ناقص کو ترک کرنا جہالت ہے یا فریب نفس۔
منصوبہ بندی کا فقدان
مقاصد و اہداف کا کوئی تعین نہ ہو، اور ترجیح و ترتیب اور تقدیم و تاخیر کے متعلق کوئی منصوبہ ذہن میں نہ ہو تو وقت برباد ہوتا ہے، ایک ڈبے میں کچھ چیزیں بے ترتیب ڈال دی جائیں تو اس میں خلا رہ جائے گا، اور اگر ترتیب سے رکھی جائیں تو خلا کم از کم رہے گا اور چیزیں زیادہ مقدار میں رہیںگی، اس کی حسی مثال سمجھئے کہ جوشخص اپنی چیزیں گھر میں بے ترتیب اِدھر اُدھر رکھ دیتا ہے، جب اس کو کسی چیز کی ضرورت پڑتی ہے تو گھر کا نقشہ قابل دید ہوجاتا ہے، بیوی تجوری دیکھ رہی ہے، بیٹی الماری میں محو ِجوستجو ہے، اور جناب بھی اِدھر اُدھر پریشان ہورہے ہیں ، یہ ہے وقت کی بربادی۔