استعمال کرتے تھے، عام انسان جس طرح سونے چاندی کی حفاظت کرتا ہے اس طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ وہ حضرات اپنے وقت کی حفاظت کا اہتمام کرتے تھے، اور جس طرح درہم و دینار اور کسی بھی قیمتی چیز کے ضائع ہونے سے انسان غمزدہ ہوجاتا ہے اسی طرح ہمارے اکابر وقت کے بے کار نکل جانے پر افسوس کیا کرتے تھے، حضرت حسن بصری ؒ فرمایا کرتے تھے:
أَدْرَكْتُ أَقْوَامًا كَانَ أَحَدُهُمْ أَشَحَّ عَلى عُمُرِهِ مِنْهُ عَلى دَرَاهِمِهِ وَدَنَانِيرهِ۔
’’میں نے ایسے لوگوں کو پایا ہے کہ ان میں سے ہر شخص اپنے دراہم و دنانیر سے زیادہ اپنی عمر کا حریص تھا‘‘۔(الزهد والرقائق )
جو دن گذر گیا اس پر افسوس
عبد اللہ بن مسعود ؓبڑے جلیل القدر صحابی ہیں فرماتے ہیں:
ما ندمت على شيء ندمي على يوم غربت شمسه نقص فيه أجلی ولم يزد فيه عملي۔ (قيمة الزمن عند العلماء)
’’ مجھے کسی چیز پر اتنا افسوس نہیں ہوتا جتنا کہ اس دن پر ہوتا ہے جو میری زندگی سے کم ہوگیا اور اس میں میرے عمل میں اضافہ نہیں ہوا‘‘۔
نہ ہو کام کچھ اور دن ہو تمام
تو ڈوبا وہ دن اور اجڑی وہ شام
عمر رفتہ پر آنسو
’’ابو اسمہ مصری کہتے ہیں: کہ ابو شریح ایک مرتبہ چلتے چلتے بیٹھ گئے ، اور اپنے چہرے پر چادر ڈال کر رونے لگے، ہم نے پوچھا: آپ کیوں رو رہے ہیں؟آپؒ نے فرمایا:تَفَكَّرْتُ فِي ذَهَابِ عُمُرِي، وَقِلةِ عَمَلِي، وَاقْترابِ أَجَلِي۔(مجھے یہ بات یاد آگئی کہ میری عمر چلی گئی ،اور اعمال کم رہ گئے، اور موت قریب آگئی)۔