سے دوچار ہوا، پس اس بات کا دھیان رکھا جائےکہ آج کی لذت کل کی تکلیف کو جنم دےگی،آج کا آرام کل کے آلام کا مقدمہ ہے، اور آج کی محنت کل کی راحت کا سبب بنے گی۔
جنت کی لذت تمام تکلیفوں کو بھلادے گی، دنیا میں کئے ہوئے مجاہدات کے سارے آثار مٹ جائیں گے، اصل ٹھکانے پر پہنچنے کے بعد ایسا معلوم ہوگا جیسے کبھی کوئی مجاہدہ کیا ہی نہیں تھا، دنیا میں سب سے زیادہ مصائب میں زندگی گذارنے والا اور پوری زندگی آنسو بہاکر نکالنے والا جنت میں پہنچ کر اپنی دنیوی تکلیفوں کا انکار کردے گا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
يُؤْتَى بِأَنْعَمِ أَهْلِ الدُّنْيَا مِنْ أَهْلِ النارِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيُصْبَغُ فِي النارِ صَبْغَةً، ثُمَّ يُقَالُ: يَا ابْنَ آدَمَ هَلْ رَأَيْتَ خَيْرًا قَطُّ؟ هَلْ مَرَّ بِكَ نَعِيمٌ قَطُّ؟ فَيَقُولُ: لَا، وَاللہ! يَا رَبِّ وَيؤْتَى بِأشدِّ النَّاسِ بُؤْسًا فِي الدُّنْيَا، مِنْ أَهْلِ الجنَّةِ، فَيُصْبَغُ صَبْغَةً فِي الجنَّةِ، فَيُقَالُ لَهُ: يَا ابْنَ آدَمَ هَلْ رَأَيْتَ بُؤْسًا قَطُّ؟ هَلْ مَرَّ بِكَ شِدَّةٌ قَطُّ؟ فَيَقُولُ: لَا، وَاللہ! يَا رَبِّ مَا مَرَّ بِي بُؤْسٌ قَطُّ، وَلَا رَأَيْتُ شِدَّةً قَطُّ (رواہ مسلم)
’’قیامت کے دن جہنم والوں میں سے ایک شخص کو لایا جائے گا جو دنیا والوں میں سب سے زیادہ خوشحال تھا، پھر اس کو جہنم میں ایک غوطہ دیا جائے گا، پھر اس سے پوچھا جائے گا اے ابن آدم! کیا تو نے کبھی کوئی بھلائی دیکھی ہے ؟ کیا تیرے پاس کبھی کوئی نعمت آئی ہے؟ وہ کہے گا: اے میرے رب! واللہ میں نے کوئی بھلائی نہیں دیکھی ، اور اہل جنت میں سے ایک ایسے شخص کو لایا جائے گا جو دنیا میں سب سے زیادہ پریشان رہا ہوگا، پھر اسے ایک مرتبہ جنت میں غوطہ دے کر پوچھا جائے گا اے ابن آدم! کیا کبھی تو نے کوئی پریشانی دیکھی ہے؟ کیا کبھی تجھ پر شدید حالات آئے ہیں؟ وہ عرض کرے گا : اے میرے رب! واللہ میں نے کوئی پریشانی نہیں دیکھی،اور نہ کبھی مجھ پر سخت حالات آئے‘‘۔