ہیں، جب دل میں نیک عمل کا داعیہ پیدا ہوتا ہے تو نفس یہ بہانہ کرتاہے کہ ابھی زندگی باقی ہے، ابھی آرام کر،بعد میں خوب محنت کرکے زندگی کا حق ادا کردینا، اور زندگی میں لمبی امیدیں بھی مقصد سے ہٹاکر فضول کاموں میں لگادیتی ہیں، اور کبھی انسان نیک ارادوں سے بھی محروم ہوجاتا ہے، حضرت علیؓ فرماتے ہیں: طُولُ الأملِ يُنْسِي الآخِرةَ۔’’لمبی امیدیں آخرت کو بھلا دیتی ہیں‘‘۔
حضرت یحیی بن معاذ ؒ فرماتے ہیں:لَا يَزَالُ العبدُ مَقرونًا بِالتواني مَا دامَ مُقيما على وعدِ الاماني (الزهدالکبیر) ’’بندہ اس وقت تک سستی میں مبتلا رہتا ہے جب تک اس کا قیام امیدوں پر رہتا ہے‘‘۔ حضرتحسن بصریؒ کا قول ہے : مَا أطالَ عبدٌ الأملَ إِلا أَساءَ العَمل۔’’جو بندہ لمبی امیدیں کرتا ہے وہ اپنے اعمال کو خراب کردیتا ہے‘‘۔
محمد بن ابی توبہ کہتے ہیں کہ حضرت معروف کرخی ؒ نے نماز کھڑی کی اور امامت کے لئے مجھے آگے کیا، میں نے عرض کیا کہ یہ نماز تو میں پڑھالوں گا لیکن پھر کسی نماز میں امام نہیں بنوں گا، اس پر حضرت معروف کرخی ؒ نے فرمایا:وَأَنتَ تحدّث نَفسكَ أَن تصَلّي صَلاة اُخْرى؟ نَعوذُ بِالله مِن طُولِ الأَملِ فَانه يمنعُ خَيرالعَملِ۔’’تو کیا آپ یہ خیال کررہے ہیں کہ آپ دوسری نماز پڑھیںگے؟(کیا معلوم اس سے پہلے موت آجائے) ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں لمبی امیدوں سے،اس لئے کہ یہ نیک اعمال میں رکاوٹ بنتی ہیں‘‘۔
درد کا درماں
کفی بالموت واعظا ،یعنی موت کے بعد کسی واعظ کی ضرورت نہیں، اگر انسان موت کے احوال پر غور کرے کہ موت کے لئے نہ کوئی زمانہ متعین ہے اور نہ کوئی حالت اس کے لئے خاص ہے، وہ بچپن میں بھی آسکتی ہےاور عنفوان شباب میں بھی پکڑ سکتی ہے، اورجس طرح وہ بیماروں کو پکڑتی ہے تندرست کو بھی اپنے چنگل میں لے سکتی ہے، تو لمبی امیدوں کے لئے دل میں کوئی گنجائش