ایام خالیہ میں سبقت لے جانا چاہتا ہوں)۔
روح بن زنباع کہتے ہیں کہ میں سفر میں ایک منزل پر اترا، اور کھانا حاضر کیا گیا، اس وقت وہاں ایک چرواہا آگیا، میں نے اس سے کہا کہ تم بھی کھانے میں شریک ہوجاؤ، اس نے کہا میں روزہ دار ہوں، میں نے کہا: کیا ایسی گرمی کے دن روزہ؟اس نے کہا :افادَعُ اَيامي تذهبُ باطلا (توکیا میں اپنے زندگی کے ایام کو یوں ہی بیکار جانے دوں) اس پر میں نے یہ شعر کہا:
لقدْ ضَنَنْتَ بايامك يا رَاعِي
إِذْ جادَ بها رَوحُ بنُ زِنبَاع
’’اے چرواہے! تو نے اپنے ایام زندگی کے ساتھ بخل کا معاملہ کیا، جبکہ روح بن زنباع نے ان کے ساتھ سخاوت کا معاملہ کرکے ان کو ضائع کردیا‘‘۔
وقت کی رفتار کا احساس
عامر بن عبد قیس تابعین میں بڑے زاہد گزرے ہیں ان سے کسی نے کہا: مجھ سے کچھ بات کیجئے، آپؒ نے اس سے فرمایا :فاَمسك الشّمسَ(سورج کو روک دے تو بات کروں گا)۔
حضرت معروف کرخی ؒ بھی بڑے اولیاء اللہ میں سے شمار ہوتے ہیں، لوگ آپ کی خدمت میں آیا کرتے تھے، ایک مرتبہ کچھ لوگ حضرت کے پاس کچھ زیادہ وقت تک بیٹھے رہے تو آپؒ نے فرمایا: اَما تُريدُونَ اَنْ تقومُوا؟ إن ملك الشّمسِ لا يفتر عنْ سوقهَا۔(کیا تم لوگوں کاارادہ اٹھنے کا نہیں ہے؟بیشک سورج کا فرشتہ اس کو ہانکنے میں کوتاہی نہیں کررہا ہے)۔
ابن جوزیؒ لکھتے ہیں کہ کچھ لوگ ایک راہب کے پاس رک گئے، اور ان سے عرض کیا کہ ہم آپ سے کچھ سوال کرنا چاہتے ہیںکیا آپ ہمیں جواب دیں گے؟ اس راہب نے فرمایا کہ پوچھو لیکن بقدر ضرورت ہی پوچھنا، زیادہ سوالات مت کرنا، اس لئے کہ گیا ہوا دن ہرگز نہیں لوٹے گا، اور عمر واپس نہیں ملے گی، اور موت بغیر کاہلی کے طلب میں لگی ہوئی ہے۔(المدهش)