عبد الرحمن بن مہدی ؒ کہتے ہیں کہ ہم مکہ میں حضرت سفیان ثوری ؒ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ ایک دم اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا: النهَارُ يعْملُ عمله (دن اپنا کام کررہا ہے) ۔
اذا کنت اعلم علما یقینا
بان جمیع حیاتی کساعۃ
فلم لا اکون ضنینا بھا
واجعلھا فی صلاح و طاعۃ
’’جب میں یقینی طور پر جانتا ہوںکہ میری پوری زندگی ایک لمحہ کی طرح ہےتو کیوں میں اس کے متعلق بخیل نہ بنوں، اور اس کو صلاح و طاعت میں نہ لگاؤں‘‘۔
محمد بن واسعؒ بہت بڑے عبادت گذار متقی اور زاہد تھے، علم و عمل میں امام تھے، آپؒ سے کسی نے پوچھا کہ کس حال میں صبح کی؟ تو آپؒ نے فرمایا: ما ظنك برجل يرتحل كل يوم إلى الآخرة مرحلة۔(تمہارا اس شخص کے متعلق کیا خیال ہے جو ہر دن آخرت کی طرف ایک منزل طے کرتا ہو(یعنی اس حال میں کیسے اطمینان مل سکتا ہے)۔(احياء العلوم )
عوض یک دو نفس قبر کی شبہائے دراز
حضرت حسان بن سنان کی بیوی کہتی ہے کہ آپ رات کو میرے پاس آتے اور بستر پر میرے ساتھ سوجاتے ، اور جس طرح عورت اپنے بچے کو سلانے کے لئے خود بھی سونے کی شکل بناتی ہے اسی طرح آپ بھی مجھے سلانے کے لئے سوجاتے ، جب آپ کو یقین ہوجاتا کہ میں سوگئی ہوں تو آہستہ سے اٹھ جاتے اور کھڑے ہوکر نماز شروع کردیتے، میں نے آپ سے کہا کہ اے ابوعبداللہ! کب تک اپنے نفس کو عذاب دیتے رہوگے، اپنے نفس پر نرمی کیجئے، تو آپ نے فرمایا: اسكتي ويحك فيوشك أن أرقد رقدة لا أقوم منها زمانا.(تو خاموش ہوجا، تجھ پر افسوس ہے، میں عنقریب ایسی نیند سوؤںگا کہ ایک زمانے تک اس سے نہیں اٹھوںگا)۔
حضرت رابعہ بصریہ ؒ کے بارے میں آتاہے کہ آپ پوری رات نماز پڑھتی رہتی تھیں،