الْحَـيَوَانُ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ﴾ العنكبوت ٦٤
’’اور یہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل اور تماشہ ہے اور( ہمیشہ کی) زندگی (کا مقام) تو آخرت کا گھر ہے۔ کاش یہ (لوگ) سمجھتے ‘‘۔
﴿اَلْمَالُ وَالْبَنُوْنَ زِيْنَۃُ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَالْبٰقِيٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّخَيْرٌ اَمَلًا ﴾ الكهف: ٤٦
’’مال اور بیٹے تو دنیا کی زندگی کی زینت ہیں، اور نیکیاں جو باقی رہنے والی ہیں وہ ثواب کے لحاظ سے تمہارے پروردگار کے ہاں بہت اچھی اور امید کے لحاظ سے بہت بہتر ہیں ‘‘۔
جب دنیوی زندگی کی یہ حقیقت ہے تو اس کی فانی لذتوں کے بہ جائے وقت کو کسی دائمی نعمت کے حصول کے لئے استعمال کرنا چاہئے ، ابن جوزی ؒ فرماتے ہیں: انسان کو چاہئے کہ اس بات میں غور کرے کہ ایک روزہ دار شام کے وقت افطار کے لئے بیٹھا، اس کے ساتھ ایک ایسا شخص بھی کھانے بیٹھا جو روزہ دار نہیں تھا، وہ دونوں اس وقت سیر ہوکر کھاتے ہیں، روزہ دار کے روزے کی تھکن بھی گئی اور روزہ نہ رکھنے والے کی راحت بھی گئی، لیکن ثواب میں دونوں کا حال بہت الگ ہوگیا،روزہ دار بڑے ثواب کا حقدار ہوگیا اور روزہ نہ رکھنے والا اس ثواب سے محروم رہا۔
ایک ابو بکرصدیق ؓ بھی گذرے ہیں اور ایک ابو جہل ملعون بھی گذرا ہے، ایک کی زندگی عمل اور آزمائشوں سے پُر ہے اور دوسرے کی زندگی ہر طرح کی مذہبی قیود سے آزاد ہے، خواہشات کی پیروی ہی اس کی زندگی کا عمل ہے، لیکن موت نے ابو بکر صدیقؓ کے مصائب کا خاتمہ کردیا اور ان کو ہمیشہ کے لئے کامیابی کا پروانہ مل گیا، دوسری طرف موت نے ابو جہل کے آرام کا خاتمہ کردیا، اب اسے ہمیشہ کے لئے ناقابل برداشت عذاب کا سامنا ہے، دنیا میں جو اسے راحت و آرام اور آزادی کی طلب تھی اور جو اسے ملی، موت کے بعد اس سے کئی گنابڑھ کر تکالیف و آلام