ہے، گویا آرام و راحت اور ظاہری و باطنی کمالات ان دونوں میں تضاد ہے، پس دنیا میں جو آرام کا طالب ہو اسے اپنا جائزہ لینا چاہئےکہ خلل کہاں واقع ہوا ہے۔
جس قدر بلندیاں مطلوب ہوتی ہیں اسی قدر قربانیاں شرط ہیں، حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مَا رَأَيتُ مِثْلَ النارِ نَامَ هَارِبُهَا وَلَا مِثْلَ الْجَنةِ نَامَ طَالِبُهَا۔ (ترمذی)’’میں نے نہیں دیکھی جہنم جیسی کوئی چیز جس سے بھاگنے والا سوگیا ہو، اور نہ جنت جیسی کوئی چیز جس کا طلب گار سوگیا ہو‘‘۔
بقدر الکد تکتسب المعالی
من طلب العلی سھر اللیالی
من رام العلی من غیر کد
اضاع العمر فی طلب المحال
’’بلندیاں بقدر محنت حاصل ہوتی ہیں،بلندمقامات کا طالب راتوں کو جاگتاہے، جس نے بغیر محنت کے مقام بلند کی خواہش کی اس نے محال چیز کی طلب میں عمرضائع کردی‘‘
یہی قانون فطرت ہے کہ قربانی و محنت کے بعد کسی چیز کا جمال و کمال آشکارہ ہوتا ہے، لوہے کو گھسا جاتا ہے تب اس میں چمک پیدا ہوتی ہے، کسی بھی دھات کو آگ میں گرم کرکے اس کو خوبصورت شکل میں ڈھالا جاتا ہے، دانہ جب زمین میں ڈالا جاتا ہے تب اس سے کھیتی لہلہاتی ہے، اور باغات تیار ہوتے ہیں، ہر چیز قربانی دینے کے بعد قیمتی بنتی ہے، پس؛
مٹادے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے
کہ دانہ خاک میں مل کر گل گلزار ہوتا ہے
جو زندگی کے میدان میں دوڑ لگانے کی کوشش کرتا ہے وہ خالق و مخلوق کا پیارا ہوتا ہے،
یہی آئین قدرت ہے یہی اسلوب فطرت ہے
جو ہے راہ عمل میں گامزن محبوب فطرت ہے
محنت و کوشش سے پہلو تہی دامنِ حیات پر شکست کا داغ ہے؛
گریز کشمکش زندگی سے مردوں کی
اگر شکست نہیں تو اور کیا ہے شکست