ؒ اور تھانویؒ کی صف میں کھڑا کرنے کی طاقت تھی، علم و عمل، زہد و ورع سے آراستہ کرنے کی قوت تھی، اور جنت کی وہ نعمتیں ان میں مخفی تھیںجن کا کسی سکندر نے بھی تصور نہیں کیا ہوگا، بے کاری و بے حسی کی راکھ کے نیچے ایسی سرد ہوگئیں گویاان صلاحیتوں میں سے کچھ حصہ نہیں پایا تھا، اگر ان فطری طاقتوں کو نیست و نابود کرکے کوئی زندگی جیا تو کیا جیا، کسی نے لمبی عمر پائی تو کیا کمال کیا، ایسی زندگی کو کیوں کر زندگی کا نام دیا جائے، اسی لئے ابن زبیرؓ نے بڑی قوت سے کہا ہے: أشر شيء في العالم البطالة ، سب سے بدترچیز بیکاری ہے۔
بعض مشاغل ایسے ہوتے ہیں جو دنیوی اور اخروی فوائد سے بالکل خالی ہوتے ہیں، جن میں مشغول ہونابھی ایک قسم کی بے کاری ہے، اگر غور کیا جائے تو ہم مشغول ہوتے بھی ہیں تو اکثر ایسے ہی کاموں میں جو بالکل لغو اور فضول ہوتے ہیں، ہمارے کان اور ہماری زبانیں ان جیسے جملوں سے بہت مانوس ہے ؛ یہ کب ہوا؟ یہ کب ٹوٹا؟ وہ کب بنا؟ یہاں کون آیا؟ وہ کس نے کیا؟ فلاں کے بیٹے نے اور فلاں کے بھائی نے ایسا کیا، فلاں نے فلاں جگہ ایسا ایسا بنایا، وہ خریدا، اتنے میں بیچا، وہ مہنگا ہوگیا، یہ سستا تھا، دن رات انہیں لایعنی باتوں میں زندگی برباد ہوتی ہے۔
ایک خوبصورت اور مضبوط مکان ہے، جس کی عام قیمت پچیس لاکھ روپئے ہیں، لیکن مالک مکان کو کسی ضرورت سے اس کو فروخت کرنے کی نوبت آگئی، جلدبازی میں پچیس لاکھ کے بجائے بیس لاکھ میں مکان فروخت ہوا، تو اب یہ کہا جائے گا کہ مالک مکان کو پانچ لاکھ کا گھاٹا آیا، مالک مکان بھی اپنے ہمدردوں سے اس نقصان کی شکایت کرکے اپنا غم ہلکا کرے گا، سمجھنے کی بات یہ ہے کہ بیس لاکھ روپئے اپنی ذات میں کچھ کم نہیں ہے، اگر کسی فقیر کو ایکدم دے دیئے جائیں تو ممکن ہے وہ خوشی کو ضبط نہ کرسکے، اور دماغی توازن کھوبیٹھے، لیکن اتنی رقم حاصل ہونے پر مالک مکان کو افسوس ہے، کیوں کہ جس مکان کے عوض میں اس کو یہ رقم ملی ہے وہ اس کی پوری قیمت وصول