کی قدر و قیمت معلوم نہیں ہوتی پھر جب وہ نعمت چلی جاتی ہے تب آنکھیں کھلتی ہیں کہ ہم نے کتنی بڑی قیمتی چیز کھودی،آج زندگی ہے، اعمال صالحہ کا موقع ہے، ایک وہ دن آئے گا کہ یہ نعمت ہمیشہ کے لئے چھین لی جائے گی پھر اس وقت حسرت و افسوس کی کوئی انتہاء نہ رہے گی، ندامت سے دل کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیںگے، مروی ہے کہ کل قیامت کے دن انسان کی زندگی کے سال، پھر اس کے مہینے، پھر اس کے ہفتے، پھر ہفتے کے دن سامنے کئے جائیں گے، جب ان کو کسی عمل خیر سے خالی دیکھے گا تو حسرت و ندامت کی تصویر بن جائے گا، پھر اگرگناہوں سے پُر دیکھے گا تو افسوس کا کیا عالم ہوگا !حسن بصری ؒ فرماتے ہیں:يُعْرَضُ عَلى ابْنِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ سَاعَاتُ عُمرِهِ، فَكُلُّ سَاعةٍ لمْ يحدِثْ فِيهَا خَيرا تقطَّعتْ نفسُه عليهَا حَسراتٍ.’’ابن آدم پر قیامت کے دن اس کی زندگی کے لمحات پیش کئے جائیں گے، پس ہر وہ گھڑی جس میں کوئی خیر کا کام نہیں کیا ہوگا اس پر اس کا دل حسرت و ندامت سے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائےگا‘‘۔
پھر انسان یہ تمنا کرے گا کہ کاش پھر سے زندگی مل جائے، تاکہ اس میں اعمال صالحہ کرکے اخروی ا نعامات کا حقدار بن جائے، لیکن اب زندگی کیسے میسر آسکتی ہے، اللہ فرماتے ہیں:
يَوْمَىِٕذٍ يَّتَذَكَّرُ الْاِنْسَانُ وَاَنّٰى لَہُ الذِّكْرٰى يَقُوْلُ يٰلَيْتَنِيْ قَدَّمْتُ لِحَيَاتِيْ۔ (الفجر)
’’ انسان اس دن متنبہ ہو جائے گا مگراب تنبہ کا موقع کہاں رہا ،کہے گا کاش میں نے اپنی زندگی (جاودانی) کے لیے کچھ آگے بھیجا ہوتا ‘‘۔
وہ بارگاہ الہی میں نئی زندگی کی درخواست کرے گا جس کو قرآن نے یوں بیان کیا ہے:
حَتّٰٓي اِذَا جَاۗءَ اَحَدَہُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِ لَعَلِّيْٓ اَعْمَلُ صَالِحًا فِيْمَا تَرَكْتُ كَلَّا اِنَّہَا كَلِمَۃٌ ہُوَقَاۗىِٕلُہَا ۔