إِذَا كُنتُ قَد جَاوزْتُ سِتينَ حجةً
ولَم اتَاهّبْ لِلمَماتِ فَمَا عُذرِي
’’اے میری آنکھو!تم میری عمر پر کیوں نہیں روتی ہوں، میری عمر میرے ہاتھ میں سے بکھر گئی اور مجھے اس کا احساس بھی نہیں ہوا،جب میں ساٹھ سال سے تجاوز کرگیا پھر بھی میں نے مرنے کی تیاری نہیں کی تو اب میرے لئے کونسا عذر رہ گیا‘‘۔
اور یہ اشعار بھی ورد زبان ہوجائیں گے:
عشتُ وظل الزمان ممدود
والغصن يهتز والصبا رودُ
فأقبل الشيب في عساكره
أسود غابٍ فغابت السودُ
قد يبس الغصن في نضارته
ومال بعد استقامةٍ عودُ
وجاءك الموت فانتظره، وذا الْ
عمر يسيرٌ والسير معدودُ
۱میں نے اس حال میں زندگی بسر کی کہ زمانے کا سایہ لمبا تھا، اور زندگی کی شاخ لہلہاتی تھی، اور باد صبا خوشگوار تھی۔۲ پھر جب بڑھاپا آیا جس کے لشکر میں جنگل کے شیر تھےتو بالوں کی سیاہی غالب آگئی۔ ۳جوانی کی شاخ جو کبھی ہری بھری تھی خشک ہوگئی اور جو پہلے سیدھی تھی اب جھک گئی۔ ۴موت کا وقت قریب آگیااب اس کا انتظار کر، عمر تھوڑی ہے اور زندگی کا سفر بھی تھوڑا رہ گیا ہے۔
کسی شاعر کے یہ اشعار بھی اپنے حسب حال معلوم ہوںگے:
أهل يعود ما مضى لي راجعا؟
أم هل أرى نجومه طوالعا
إذا تذكرت زماناً ماضياً
جدد حزناً أنقض الأضالعا
يا حسرتي على زمانٍ قد مضى
وذهبت أيامه ضوائعا
بادربذي الباقي وأدرك مامضى
لعل ما يبقى يكون نافعا
۱ کیا میرے لئے گذرا ہوا زمانہ واپس آئے گا، کیا پھر سے زندگی کے ستارے طلوع ہوں گے۔