تذکرہ مجمع البحار |
ہم نوٹ : |
|
اس کے شروع میں حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ کے حالاتِ زندگی مختصرانداز میں پیش کیے گئےجن کی معلومات دینے میں زیادہ حصہ حضرت میر صاحب دامت برکاتہم کا تھا اور کچھ وہ باتیں تھیں جو بندے نے حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ سے خود سنیں تھیں۔حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ کے اس تعارفی خاکہ کو’’سفر نامہ رنگو ن وڈھاکہ‘‘کے شروع میں شایع کردیا،جب خانقاہ کراچی حاضرہوکر حضرت کی خدمت میں کتاب پیش کی تو سوانحی خاکہ دیکھ کر حضرت نے ناراضگی کا اظہار فرمایا اور فرمایا آیندہ ایڈیشن میں اسے حذف کردینا۔بندے نے بلا اجازت شایع کرنے پر معافی مانگی اور وعدہ کیا کہ آیندہ شایع نہیں کریں گے۔ بندہ بہاول نگر واپس آگیا،تین چار دن کے بعد حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ کا کراچی سے فون آیا، حضرت نے فرمایا کہ احباب نے بتلایا ہے کہ آپ کا تعارفی خاکہ پڑھ کر آپ سے محبت میں شدت پیدا ہوگئی ہے اور یہ بات سمجھ آگئی ہے کہ بزرگوں کے ایامِ فتوحات نہ دیکھو بلکہ ایّامِ مجاہدہ دیکھو اور اس کی اتباع کرو،لہٰذا اس کو برقرار رکھو بلکہ کچھ اور حالات بھی پوچھ کر شایع کردو۔ الحمدللہ حضرت کی اس حوصلہ افزائی اور اجازت کے بعد بندے کو محسوس ہوا کہ حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ پہ مستقبل میں لکھی جانے والی کوئی بھی تفصیلی کتاب کا یہ متن ہوگا۔ چناں چہ آج جب کہ حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ ہمارے درمیان نہیں ہیں اور ان پر مختلف اخبارات اور رسائل میں مضامین منصّۂ شہود پر آئے ہیں اور آپ کے بارے میں تعارفی کلمات لکھے گئےہیں تو تقریباً سب نے اسی سوانحی خاکہ سے استفادہ کیا ہے مثلاً روزنامہ اسلام، ضرب مومن،ماہنامہ الابرار کراچی ،ہفت روزہ خاور بہاول نگر، صدائے اسلام میلسی، ہفت روزہ ختم نبوت،روزنامہ نئی بات اور دارالعلوم (وقف) دیوبند کا نمایندہ رسالہ ماہنامہ ندائے دارالعلوم دیوبند میں یہ حالات شایع ہوئے۔ بزرگانِ دین کا فیضان ان کے دنیا سے جانے کے بعد مزید بڑھ جاتا ہے۔ آج جب کہ ہر طرف حضرت کے فیضان کی بازگشت ہے تو اس بات کی شدت سے ضرورت محسوس کی گئی کہ حضرت کے اس سوانحی خاکہ کو کتابی شکل میں شایع کردیا