ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
محمودزکی بن مولانا محمد ابراہیم فانی ؒ* ابوجی نوراللہ مرقدہ موت سنت بنی آدم ہے یہاں آنا ہی جانے کی تمہید ہے ۔موت کے اٹل قانون سے نہ کوئی پیغمبر مستثنی ہوئے نہ کوئی صحابی یا ولی، کیا بادشاہ کیا گدا سب اسی راہ کے مسافر ہیں۔ کل نفس ذائقۃ الموت کاعظیم فرمان اللہ جل جلالہ کی حاکمیت کا اعلان کرتا ہے کہ یہاں جو بھی آیا جانے کیلئے آیا باقی رہ جانے والی ذات صرف اللہ کی ہے۔ کوئی انسان قدرت کی بارگاہ سے ہمیشہ کی زندگی لیکر نہیں آتاہر انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی موت اسکے ساتھ چلی آرہی ہے ۔ہر شخص کی سانسیں قضاء الہی میں گنی ہوئی محفوظ ہیں جن میں کسی کی کوشش ،تمنا و آرزو سے کوئی کمی و بیشی ممکن نہیں ۔ پیدا کرنے والا ہی جانتا ہے کہ کسی کو کب تک دنیا میں باقی رکھنا قرین حکمت ہے کیونکہ وہی ذات حکیم بھی ہے اور اپنے بندوں پر کائنات کے ہر فرد سے زیادہ رحیم بھی لیکن چونکہ ہم کمزور ہیں ہماری عقلیں ناقص اور سوچ ناپختہ و محدود ہے اس لئے مذکورہ بالا حقائق پر مکمل ایمان کے باوجود دل آتش غم سے سلگ رہا ہے، جذبات میں ایک ہیجان اور آنکھوں میں آنسؤں کے طوفان موجزن ہیں دل پارہ پارہ اور کلیجہ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے ٹوٹ رہا ہے کہ ابوجی اپنی عمر فانی پوری کرکے رہگرائے عالم بقا ہو گئے ہیں اناللہ ونا الیہ راجعون کیسے کیسے چشم و عارض خاک کی زینت بنے گردش دوراں خدارا لوٹ کر آنا ذرا لشکر فریاد ونالۂ کے لئے میرے خدارا وسعت صحرا بھی کم ہے اس کو پھیلانا ذرا دل و دما غ ابھی تک اس حقیقت کو قبول کرنے میں متردد ہے کہ ابو جی جو ہماری چھوٹی چھوٹی تکالیف پر تڑپ اٹھتے تھے آج ہمیں یوںاپنی جدا ئی کے لق و دق صحرا میں بے سر وسایۂ چھوڑ گئے جہاں ہر طرف غموں کے گھٹا ٹوپ اندھیرے چھائے ہوئے ہیں اور روشنی کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی۔یااللہ توہی اس صدمے پر صبرکی توفیق عطا فرما اللہم لا ملجا ولا منجا الا الیک الہی تو ہی درد کا درمان ہے اورتیرا ہی فرمان ہے کہ دل لاکھ ٹوٹا سہی ایک بار اناللہ وانا الیہ راجعون پڑھو میںاولئک علیھم صلوات من ربہم ورحمہ و اولئک ھم المھتدون میں نام درج کروادونگا!! __________________________ * متعلم درجہ سادسہ جامعہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک