ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
مولانا ایاز احمد حقانی* استاد محترم حضرت فانی صاحب کی جدائی حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ سے دریافت کیا گیا کہ ہماری نشست وبرخاست کیسے لوگوں کے ساتھ ہونی چاہیے۔ آپ ؐ نے فرمایا : من ذکرکم بااللہ رؤیتہً وزاداً فی علمکم منطقتہ وذکرکم بالاخرۃ عملہ وہ شخص جس کو دیکھ کر تمہیں خدا یاد آئے اور جس کی گفتگو سے تمہارا علم بڑھے اور جس کے عمل کو دیکھ کر آخرت کی یاد تازہ ہو۔ میرے استاذ مکرم حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد ابراہیم فانی صاحب بھی انہی قدسی صفات میں سے تھے۔ حضرت کے انتقال سے تحقیق وتصنیف ‘ درس و تدریس ‘ وعظ و تبلیغ کے میخانے ویران ہوگئے۔ یوں تو موت کا سلسلہ ہر لمحہ جاری وساری ہے‘ لیکن بعض شخصیات کے اُٹھ جانے سے سارا ماحول سوگوار نظرآتا ہے۔ بالخصوص جب کہ جانے والا گوناگوں اوصاف حمیدہ کا مالک ہوں ایسا وجود سراپاخیر اور فیض رسان تھا۔ اس سے ہمیشہ کے لئے محروم ہوجانا جس قدر صدمے اورافسوس کا باعث ہوسکتا ہے۔ اس کا بیان واظہار لفظوں میں کس طرح ہوسکتا ہے وہ ساری عمر فیض رسانی میں مصروف رہے۔ دنیا سے بے نیازی ‘ قناعت ‘ سادگی ‘ خودداری وواستغنا انابت الی اللہ ‘ مجاہدہ وریاضت ‘ مہمان نوازی‘ خوش اخلاقی ‘انکساری و تواضع ان کی شخصیت کے نمایاں جوہر تھے۔ حق تعالیٰ کی توفیق و عنایت سے اپنے علم وقلم سے جو پاکیزہ اور یادگار نقوش وآثار چھوڑ گئے ہیں‘ وہ رہتی دنیا تک حاملین علم کی رہنمائی کرتے رہیں گے۔ بندہ ۱۹۷۶ء میں جب مادر علمی جامعہ حقانیہ ‘ زادہااللہ شرفا،شرقاًمیں داخل ہوا تو حضرت الاستاذ اس وقت طالبعلم تھے‘ بندہ حضرت اقدس سیدی و مرشدی قطب الاقطاب مولانا مفتی محمد فرید صاحب ؒ کیساتھ خدمت میں رہنے لگا۔ حضرت مفتی صاحب اور حضرت شیخ الحدیث مولانا عبدالحلیم صاحب عرف صدر صاحب کے کوارٹروں کے دیوار آپس میں ملحق تھے۔اور دونوں کواٹروں کے مہمان خانہ نے کے دروازے سڑک کے طرف تھے اس وجہ سے آپس میں ایک دوسرے _______________________ *مدیر سہ ماہی ’’تجلیات فریدیہ‘‘، مہتمم جامعہ اسلامیہ فریدیہ چارسدہ