ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
مولانا فضل علی حقانی * آہ ! میرے بھائی میرے دوست حضرت مولانا الحافظ محمد ابراہیم فانی اس دارِ فانی میں ہرآنے والا جانے ہی کیلئے آتا ہے ‘قدرت کی کرشمہ سازی بعض ہستیوں کو عظیم مائوں کی کوکھ سے جنم دے کر خاص تربیت سے رکھتی ہے۔ دنیا میں آنے کے بعد ایسی ہستیاں قدرت کے وہ مقاصد جس کیلئے ان کا تخلیق اور تربیت کیا گیا ہو ‘ پورا ہونے کے بعد رحمت ِ الہٰی کی آغوش میں جاکر ہمیشہ کیلئے امر بن جاتے ہیں اور رحلت کے بعد ان کی عظمت دنیا پر آشکارہ ہوکر ایک عَالَم کواپنے پیچھے سوگوار چھوڑ جاتے ہیں۔ انہی عظیم ہستیوں میں میرے بھائی اور حقیقی دوست حضرت علامہ حافظ محمد ابراہیم فانی صاحب مرحوم تھے جو طویل علالت کے بعد ۲۶ فروری ۲۰۱۴ء بروز بدھ ہم سب کو سوگوار چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جاملے فرحمۃ اللہ رحمۃً واسعۃً ،برادرم جناب اسماعیل صاحب نے ان کی وفات کی خبر صبح ۳۰:۳ کو گلوگیر آواز سے سنائی جو کسی صاعقہ سے کم نہ تھی۔ خاندانی پس منظر: حافظ محمد ابراہیم فانی ؒایسے خاندان کے چشم و چراغ تھے جس کے بارے میں یقینا کہاجاسکتا ہے کہ ’’این خانہ ہمہ آفتاب است‘‘ فانی صاحب مرحوم کا نسبی اور روحانی رشتہ اس شجرہ طوبیٰ سے تھا جن میں بڑے بڑے جبال العلم صاحب نسبت بزرگ گزرے ہیں جن کے شاگرد دنیا کے کونے کونے میں تشنگان علم کو سیراب کرچکے ہیں اور بڑے بڑے عالمی تحریکوں کا حصہ رہ چکے ہیں۔جن میں مجاہد کبیر حضرت مولانا سیف الرحمن صاحب ’’مہاجر کابل‘‘ بحرعمیق مولانا قطب الدین صاحب غورغشتوی ‘ مولانا سید میرمجدد ننگرہاری‘ مولانا عبدالجمیل طوروی‘مولانا قاضی عبدالحق کابلی‘ مولانا پردل قندہاری اور مولانا سودائی بام خیل شامل ہیں۔ پھر فانی صاحب مرحوم کی تربیت جس ہستی کی آغوش میں ہوئی وہ رہتی دنیا تک صدرالمدرسین کے نام سے یاد رکھے گی۔ ایسی عبقری شخصیت جس نے جنوبی ایشیاء کی عظیم اسلامی یونیورسٹی دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں آخر دم تک ہزاروں تشنگانِ علوم کو قال اللہ وقال ____________________________ * سابق وزیر تعلیم ‘ صوبہ خیبر پختونخوا