ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
مولانا محمد فضل عظیم حقانی آہ !میرے محبوب ومحب ساتھی حافظ محمد ابراہیم فانی ؒ انسان کا دنیا میں مختلف زمینی حقائق سے واسطہ پڑتاہے اور اُسے تسلیم کرنے کے بغیر کوئی چارہ نہیںہوتا۔ بعض حقائق ایسی ہوتی ہیں جو روزمرہ کے مشاہدات میں ہوکر ان سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ۔ ان حقائق میں سے ایک حقیقت موت کی بھی ہے ؎ میں آنکھیں بند کرتا ہوں کہ یہ منظر نہ دیکھ آؤں وہ منظر آنکھ میں کُھب کر کہ خود کو خود دِکھاتاہے لیکن بعض ایسے بھی ہیں کہ اپنی ذات کے اعتبار سے کئی سارے کمالات وصِفات کے حامل ہوتے ہیں، جن کا وجود’’ رحمت‘‘ اورعدم ’’زحمت‘‘ اور عظیم نقصان کا باعث ہوتاہے۔رسول اللہ ا نے ایسے باکمال وبامرادافراد کی موت اور وفات کو عالَم کی موت گردانا ہے ۔ارشادگرامی ہے: ’’مَوتُ العالِمِ مَوتُ العالَم ‘‘ انہیں باکمال وباخِصال افراد میں سے ایک میرامحبوب ومحب ساتھی مولانا حافظ محمد ابراہیم فانیؒ تھے ؎ 26 فروری 2014 ء کو بدھ کی رات برخودارم محمد برہان نعمانی (شریک دورۂ حدیث دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک) نے پشاور ہسپتال سے فون کیا کہ میں محترم فانی صاحب کے ساتھ ہوں، اور ڈاکٹروں کے مطابق ان کی زندگی ختم ہے۔ اگر تم ملاقات کے لئے آسکتے ہو تو کہ زندگی میں ملاقات ہوسکے ۔ اس سے کچھ قبل مَن بندہ فضل عظیم عیادت کے لئے حاضر بھی ہواتھا، اورپھر قریب ایام میں فون پر بھی پوچھ کر بات ہوئی تھی۔ اس موقع پر میں خود بھی ایک ہفتہ سے سخت صاحبِ فراش تھالیکن اس پیغام کے ساتھ تمام رات سخت ڈراؤنی خوابیں دیکھتا، اور خطرے کا اِلارم محسوس کرتا رہا کہ صبح کو درس کے دوران ہی خبر آئی کہ فانی صاحب بہ قضائے الہٰی وفات پاگئے ۔’’اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا الیہ راجعونO اِنَّ لِلّٰہِ مَا اَخَذَ وَلـــہٗ مَااعْطٰے وَ کلُّ شیئٍ عِنْدَ ہٗ بِاجَلٍ مُّسَمّٰی ‘‘میری آنکھوں کے سامنے اس شعر کا مصداق گھوم گیا کہ ؎ آسمان بیفتد و کوھسار بجنبد آنگہ کہ کسے نعْیِ تو آرد و بگوید