ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
جناب محمد عدنان زیب *
زمیں کھا گئی آ سماں کیسے کیسے
حافظ محمد ابراہیم فانی ؔ ایک عہد ساز شخصیت
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
جب میں پہلی بار اُن سے ملا تو مجھے یوں لگا جیسے اُن سے صدیوں کی پہچان ہو ۔چہرے پر مسکراہٹ ‘ لبوں پر تبسم‘مہمان نوازی اور منکسر المزاجی آ پ کی طبیعت کا خاصہ رہی ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ رشتہ مضبوط سے مضبوط تر ہو تا گیا اور پھر علم وادب کی محفلیں سجنے لگیں ۔ جب میں ایم فل کی ڈگری کے لیے تحقیقی مقالہ لکھنے میں مصروف تھا تو اُن سے وقتاً فوقتاً ملاقات ہو تی رہتی تھی ۔ماہنامہ ’’الحق ‘‘ کے حوالے سے اُنہوں نے بہت رہنمائی فرمائی ۔تھوڑے ہی عرصے میں ہم ایک دوسرے کے بہت قریب ہو گئے ۔ہنسی خوشی دن رات گزر رہے تھے لیکن قانون قدرت ہے کہ ؎
دنیا میں خوشی کے ساتھ ہزاروں غم بھی ہو تے ہیں جہاں بجتی ہے شہنائی وہاں ماتم بھی ہوتے ہیں
دنیا میں آنکھ کھولنے والے کسی بھی بچے کے بارے میں یہ نہیں بتایا جا سکتاکہ جب وہ اس دنیا سے جائے گا تو اپنے پیچھے ہزاروں آنکھوں کو اشکبار کر جائے گا ۔بے شمار ہستیاں آ ج ہماری آ نکھوں سے اوجھل ہو چکی ہیں۔ مگر جانے والے اپنے پیچھے یادوں کے ان مٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں جنہیں یاد کرکے انسان آ نسوؤں کے سمند ر بہاتا جا تاہے ۔ ایسی ہی ایک عظیم ہستی کچھ رو ز قبل ہی اس دار فانی سے داربقا کی طرف کو چ کرگئی۔ جب ہم عمرے کی غرض سے حرمین شریفین میں تھے تو ایک روز مدینے سے اپنے ایک ساتھی کو فون کیا تو اُس نے اپنی مصروفیت کا ذکر کرتے ہو ئے جب یہ کہا کہ ۱۱ بجے فانی صاحب کے جنازے کے لیے گیا تو یہ الفا ظ سُن کر میں ایک لمحے کے اپنی جگہ پر ساکت ہو گیا اور کچھ بولنے سے قاصر رہا ۔جب فون بند کیا تو اُن کا چہرہ میرے سامنے سے نہیں ہٹتا تھا۔مسجد نبوی ا میں اُن کے لیے ۲ رکعت نفل اور روزہ رسول ا پر اُن کی طرف سے درود و سلام اور اُ ن کے بلند درجات کے لیے اللہ کے حضور دعائیں کیں ۔اگلے ہی دن صبح کی نماز میں گاؤں کے کچھ ساتھی ملے جن میں سے ایک ساتھی موبائل فون پر طویل گفتگو میں مصروف تھا ۔جب اُنہوں نے فون بند کیا تو ساتھ یہ درد ناک خبر دی
________________________
* مدرس ،امہ چلڈرن اکیڈمی ‘ سوریا خیل ،نوشہرہ