ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
مختصر یہ کہ آپ کے شاعرانہ کلام کا جھلک آپ کے کتابوں ’’نالہ زار‘‘ پشتو زبان میں ’’ازغی دتمنا‘‘ ، ویرژن تصورات‘اور ’’داغہائے فراق‘‘ (جوکہ مرثیوں پر مشتمل ہے) سے واضح ہے کہ آپ عصر حاضر کے بہترین شعراء میں سے تھے۔ فرق باطلہ کا تعاقب اور جامعہ حقانیہ سے محبت : بچپن سے فانی صاحب مرحوم کی سیاسی وابستگی جمعیت علماء اسلام سے تھی۔ زمانہء طالب علمی میں اس میدان میں گائوں میں بڑے بڑے معرکے سرکئے۔ جس کا یہ مختصر مضمون تحمل نہیں کرسکتا۔ گائوں میں رسومات اور بدعات کے خلاف جرات مندانہ انداز کے ساتھ میدان میں کھود کر انجام سے بے پرواہ ہوتے۔ جن میں اکثر واقعات اصحاب احوال اوراہل قصبہ کو معلوم ہیں۔ اسی طرح سیاست کے میدان میں جلسے جلوسوں میں شرکت اور خصوصاً انتخابات کے موقع پر علمی اورعملی متاع لٹا کر اپنوں اور بیگانوں کے طعنوں اور مخالفت کی پرواہ کئے بغیرخلوص دل سے ہماری سرپرستی فرماتے رہے، اپنے ہم جنسوں کے محفل میں انتہائی خوش وخرم جبکہ عوام کی محفلوں سے کتراتے تھے ،یہی وجہ تھی کہ آپ کا والہانہ تعلق اپنے مادر علمی دارالعلوم حقانیہ سے اس قدر تھا کہ آپ چھٹیاں بھی دارالعلوم میں گزارتے اور بہت کم اپنے گائوں تشریف لاتے۔ جب ہم شکایت کرتے تو فرماتے کہ میرا دارالعلوم سے نکلنا مچھلی کو دریا سے باہر نکالنے کے مترادف ہے۔ لیکن موت نے آخر ہم سب کو اپنے اپنے وقت پر اسی دارِ فناء سے داربقاء کو لے جانا ہے۔ فانی صاحب مرحوم نے اپنے والدِ محترم حضرت صدر صاحب مرحوم کے بارے میں فرمایا تھا کہ ’’شکستی کمرما‘‘ یہ جملہ آج مجھ پر فانی صاحب مرحوم کے سانحہ رحلت پر صادق ہورہاہے۔ فانی مرحوم کے سانحہ رحلت نے ہمارے دلوں کومضطر اور حواس کو معطل کرکے رکھ دیا۔یہی وجہ ہے کہ جنازہ ادا کرنے کے وقت میں غم سے نڈھال اتنا تو تھا کہ اپنے انتہائی مہربان دوستوں جناب مولانا حامد الحق صاحب اور مولانا راشد الحق صاحب کا نام بھول گیا‘ زبان گنگ‘ دل ماؤف اور عقل پژمردہ تھا۔ دارالعلوم حقانیہ اور زروبی میں ہزاروں علمائ‘ طلبا اور صلحا وعوام الناس نے جنازہ میں شرکت کی۔ فانی صاحب بستر مرگ پر بھی دوستی اور محبت کا لحاظ رکھتے ہوئے مجھ جیسے طالبعلم سے گائوں میں نماز جنازہ کی امامت ادا کرنے کی وصیت کرگئے۔ جسے میں اپنے لئے باعث سعادت اور باعث نجات سمجھتا ہوں۔ اور یوں فانی مرحوم اس دار فانی سے تمام رشتہ دار اور احباب کو غمزدہ چھوڑ کر سفر آخرت پر روانہ ہوئے۔اللھم نور قبرہ وبرد مضجعہ مسکراہٹ کی لکیریں جس نے تصویروں کو دی اس مصور کی جبیں پر ہرشکن مضروب ہے