ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
مولانا فیض الرحمن* ایک باغ و بہار شخصیت حضرت فانی صاحب رحمہ اللہ وہاں پہنچ گئے جہاںایک نہ ایک دن ہر متنفس کو پہنچنا ہے۔انسان کا موت کے ساتھ دیرینہ رشتہ ہے اور انسان اگرچہ موت کو تسخیر نہیں کرسکا ہے لیکن موت بھی کبھی انسان کے ان کارناموں کو بے نور یا نابود نہیں کرسکی ہے جو موت سے زیادہ عظیم مانے گئے ہیں۔حضرت فانی صاحب رحمہ اللہ کا شمار بھی ان شخصیات میں ہوتا ہے جن کی خدمات تاحیات یاد رکھی جائیںگی ۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو قابل رشک خوبیوں، بے پناہ صلاحیتوں اور لائق تقلید اوصاف حمیدہ سے نوازا تھا۔علمی پختگی وگہرائی ہو یا عملی استقامت، درس وتدریس ہو یا شعر وادب، وسعت مطالعہ ہو یافن تحریر، ہر بحر کے وہ بہترین شناور تھے۔آپ ایک باغ وبہار شخصیت کے مالک اور اپنی ذات میں انجمن کی حیثیت رکھتے تھے۔یوں تو فانی صاحب کو تصنیف و تالیف اور شعر و ادب سے بھی شغف تھااور ایک درجن سے زیادہ کتب ان کی قابل قدر یادگار ہیں مگر آپ کا اصل میدان تدریس ہی تھاجس کو آپ نے اپنی زندگی کے چھتیس سال دیے۔مادر علمی جامعہ حقانیہ کی آغوش شفقت سے آخر وقت تک چمٹے رہے ،یہیں ان کا ستارہ چمکا اور یہیںاس آفتاب نے سفر آخرت اختیار کیا۔آپ کا انداز تدریس بہت دلنشین ہوتا جس میں کبھی کبھار طلبہ کے اصرار پر اپنی کوئی غزل سنا کرمحفل کو شگفتہ بنا دیتے تھے۔مباحث میں تفصیل واختصار کے لحاظ سے آغاز سال اور اختتام سال میں کوئی امتیاز نہ تھا جس معیار پر شوال میں درس شروع فرماتے اس پر شعبان تک ثابت قدم رہتے اور کتابیں وقت پر ختم ہوجاتی تھیں۔ حضرت فانی صاحب سے میرا تعلق تعلیم سے لیکر تدریس تک ایک طویل عرصے پر محیط ہے۔انکی شگفتہ مزاجی اور حاضر جوابی سے اساتذہ کی محفلیں باغ وبہار بنی رہتی ۔درسگاہ جاتے ہوئے دن میں کئی بار ہمارا آمنا سامنا ہوتا تھا اور وہ اپنے روایتی انداز میںمجھے مخاطب کرکے ایک چٹکلہ سنادیتے۔ان کے ساتھ بیتے ہوئے لمحات مزاح و لطائف، سنجیدگی و وقار اور سکون و اطمینان سے بھرے ہوئے ہیں۔چونکہ ہمارے درمیان بہت بے تکلفی تھی تو کبھی کبھار فانی صاحب مجھے راستے سے ہی آواز دے کر اپنے بیٹھک بلا لیتے تھے اور پھر وہاں ہمارے درمیان شعر و شاعری کی خوب مجلس جمتی۔ایک بارہمارے مکانات کے سامنے کچھ لائن مین ایک درخت کی اونچی شاخ کاٹ رہے تھے جو اپنی اونچائی کی وجہ سے بجلی کے تاروں سے لگ رہی تھی ۔ اتفاقاً میں بھی وہاں کھڑا تھافانی صاحب نے یہ منظر دیکھا تو مجھے آواز دیکر فرمایا کہ وہ رحمت اللہ دردؔ کا شعر یاد آرہا ہے جو تم اکثر سنایا کرتے تھے کہ _______________________ *مدرس جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک