ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
مولانا حامد الحق حقانی * آہ ! میرے استاد ؒو رفیق پیکراخلاص وللہیت مجسمہ مہروفاعاجزی وانکساری کی تصویرخلیق وملنسار،کشادہ پیشانی،چہرے پرسدابہار مسکراہٹ سجائے مرنجاں مرنج طبیعت کے مالک، درویش صفت سادگی اوربے نفسی کے عکس جمیل ،تصنع اورتکلف سے کوسوں دوردنیاوی علائق سے بیزار، اپنی علمی وادبی دنیامیں گم، کتاب وقلم کادلدادہ اپنی ظرافت طبع اوربذلہ سنجی ونکتہ افرینی کیوجہ سے اساتذہ اورحلقہ تلامذہ میں یکساں مقبول ظاہری وضع قطع کے اعتبارسے ان پرکوئی یہ گمان نہیں کرتاکہ یہ جامعہ دارالعلوم حقانیہ کے سینئر استاد اور نامورادیب اورچارزبانوں کے مستندشاعرہیں۔یہ ہیں ہمارے محبوب استاداور دوست مولانامحمدابراہیم فانی صاحب مدظلہ جنہوں نے اپنی زندگی ترویج علوم وفنون اورخدمت دین مبین کیلئے وقف کررکھی تھی۔اپ ضلع صوابی کے مشہورعلمی وروحانی قصبہ موضع زروبی کے عظیم الشان علمی خانوادے (جس شجرہ طوبیٰ کی شاخیں برصغیروافغانستان سے لیکرایران وروسی ترکستان سے ہوتے ہوئے مشرق بعیدتک پھیلی ہوئی ہیں) ۱۹۵۵ ء میں امام المتکلمین رئیس المفسرین امیرالمحدثین فقیہ العصرعارف بااللہ جامع المعقول والمنقول صدر المدرسین علامہ عبدالحلیم صاحب قدس سرہ العزیزکے ہاں پیداہوئے۔ابتدائے تعلیم وتربیت ہی سے مولاناپراللہ کا خصوصی کرم تھا کہ پہلے پارہ کے دوتین ورق سیکھنے کے بعددیگرپارے بغیراستادکے پڑھے۔مڈل تک عصری تعلیم اپنے گاؤں میں حاصل کی۔مڈل کامتحان پاس کرنے کے بعدآپ نے اکوڑہ خٹک کے گورنمنٹ ہائی اسکول میں داخلہ لیا۔پھردسویں جماعت میں سہ ماہی امتحان دینے کے بعدبعض ناگزیروجوہات کی وجہ سے اپنے علاقہ موضع ٹوپی (جوآج کل ضلع صوابی کی تحصیل ہے)کے سکول میں داخلہ لیا۔اوراسی سکول سے میٹرک بورڈکاامتحان پاس کیا۔اس کے بعد۱۹۷۰ء میں آپ نے باقاعدہ دینی تعلیم کاآغازکرتے ہوئے دارالعلوم حقانیہ اکووڑہ خٹک میں داخلہ لیا۔یہاں پریہ بات بھی قابل ذکرہے کہ آپ سکول کے ساتھ ساتھ اپنے والدمکرم اوراپنے ماموں علامہ عبدالوحیدقاسمی فاضل دیوبندسے بعض دینی رسائل اورفارسی نظم کی کتابیں پڑھتے رہے مثلاکریما، پنج کتاب،گلستان سعدی وغیرہ۔دارالعلوم حقانیہ میں کتابیں پڑھنے کے ساتھ آپ قرآن مجیدکے حفظ کیلئے مکمل طورپرمتوجہ ہوئے۔اس دوران آپ نے جن اساتذہ کرام سے کسب فیض کیاان میں امام المتکلمین حضرت العلامہ _______________________ * مدرس جامعہ دارالعلوم حقانیہ