ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
جناب سلطان فریدی* موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس 26فروری 2014 کو صبح ساڑھے سات بجے میں سکول جانے کی تیاری میں مصروف تھا کہ محلے کی مسجد سے کسی صاحب نے اعلان کیا:مولانا محمد ابراہیم بھائی خیل وفات پاگئے ہیں ۔ جنازے کا اعلان بعد میں کیاجائیگا ۔ میں نے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھی ۔ دل ہی دل میں فاتحہ پڑھی ۔ اللہ تعالی فانی مرحوم کو اپنے جوارِ رحمت میں بلند مقام پر فائز کرے ان کے اہلِ خانہ اور ہم سب غمزدہ گان کو صبرِ جمیل کی توفیق دے آمین ۔ میرے گھر سے سکول تک کا فاصلہ دس منٹ کاہے ۔ اس دوران میں ، میں فانی صاحب کے علمی وادبی وتدریسی مقام پر غورکرتارہا،ان کی تحریر کردہ کتب گویا گلستانِ علم وادب کے رنگ برنگے پھول ہیں۔ یہ کتابیں کچھ تدریسی کچھ سوانحی اور کچھ شعروادب پرمشتمل ہیں ۔ ان کو نظم ونثر پر یکساں قدرت حاصل تھی نالہ زار ،اردو شاعری کامرقع،حیات صدرالمدرسین اور حیات شیخ القرآن ان کے نثری نقوش ہیں ۔ دیگر فارسی ،پشتواور عربی کا منظوم کلام اس کے علاوہ ہے ۔ نالہ زار سے ان کے یہ دو اشعار بار بار در دل پر دستک دینے لگے : ہم کو دعوی خودستائی کانہیں فانی مگر ملتے ہیں دنیا میں ہم جیسے قلندر خال خال زمانہ معترف ہے اب ہماری استقامت کا نہ ہم سے قافلہ چھوٹا نہ ہم نے راستہ بدلا پہلے شعر میں فانی صاحب اپنی قلندری اور درویش صفت طبیعت کے دعویدار ہیں ۔ ایسا کرنے میں وہ حق بجانب ہیں کیونکہ آج وہ نہایت سادہ اور تصنع سے خالی زندگی گزار کر رخصت ہورہے ہیں۔ دوسرے شعر میں وہ حق سے وابستگی اور سیدھے راستے پر چلنے کامدعی ہیں جس پر ان کی چالیس سالہ تدریس ، تحریر وتقریر میں گزری عملی زندگی شاہد ہے ۔واقعی وہ اس قافلہ سے عمر بھر وابستہ رہے جو ہر لمحہ منزلِ حق وصداقت کی جانب گامزن ہے ۔یہی کچھ سوچتے سوچتے میں سکول کے بڑے گیٹ پر پہنچنے والا ہی تھا کہ میرا دھیان ___________________ * ادیب‘ شاعر‘‘ زروبی‘صوابی