ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
مولانا حافظ لقمان الحق حقانی * فانی صاحب کا سفر آخرت (جنازے کی مختصر روئیداد) شیخ الحدیث مولانا محمد ابراہیم فانی کی وفات حسرت آیات سے ہر آنکھ اشکبار تھی ، ہر طرف سے انسانوں کاٹھاٹھے مارتا ہوا سمندر احاطہ دارالعلوم کی طرف رواں دواں تھا ۔ ہم سب غم سے نڈھال دارالعلوم حقانیہ میں جمع تھے کہ اسٹیج سے مولانا سید محمد یوسف شاہ حقانی نے اعلان کیا کہ فانی صاحب کے دیرینہ دوست ، ہم مجلس ہم مکتب وہم نشین مولانا عبدالقیوم حقانی صاحب تشریف لائے ہیں ، وہ خطاب فرمائیں گے۔ مولانا عبدالقیوم حقانی کا خطاب: مولانا عبدالقیوم حقانی نے مائیک سنبھالتے ہوئے خطبہ مسنونہ کے بعد ارشاد فرمایا: خلق الموت والحیاۃ لیبلوکم ایکم احسن عملا ، اللہ کا فرمان ہے کہ میں نے موت وحیات کو تمھارے امتحان کے لیے پیدا کیاہے کہ تم میں سے بہترین عمل کرنے والا کون ہے ؟ بھائیو ! یہ دنیا دارالامتحان ہے ، ہم سب نے یہاں سے جاناہے ، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد ابراہیم فانی صاحب خوش قسمت تھے کہ اس دنیا کی تکالیف اور آزمائشوں سے سکون پاگئے ، مولانا بہترین مصنف تھے ، ادیب تھے ، شاعر تھے ، مدرس تھے ، استادتھے،شفیق ومحسن اتالیق تھے ، استادحدیث تھے غرض اپنی ذات کے اعتبار سے ایک انجمن تھے ۔ابھی چند دن پہلے جامعہ ابوہریرہ کے اساتذہ ،بیمارپُرسی کیلئے گئے تھے ‘ انہیں بتایا کہ حقانی صاحب کو میرا پیغام دینا کہ میں نے تمہارا ریکارڈ توڑدیا، میں نے ایک مہینہ میں بیماری کی حالت میں چھ کتابیں لکھی ہیں ۔ بہر حال ! وقت مختصر ہے ، دیگر اکابر اورمشائخ بھی تشریف فرما ہیں : فانی صاحب کے ساتھ گزرے ہوئے ایام کو چند منٹ میں بیان کرنا ناممکن ہے ۔ ع سفینہ چاہیے اس بحربیکراں کیلئے اللہ تعالی فانی صاحب کو اعلی علیین میں مقام عطا فرمائیں ۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین مولانا عزیز الرحمن ہزاروی کا خطاب: حضرت حقانی صاحب کے بیان کے شروع ہونے سے پہلے علما وطلبہ کا جم غفیر دارالعلوم پہنچ چکا تھا،احاطہ مدنیہ اور مسجد کھچاکھچ بھری ہوئی تھی ، شاہ جی نے مائیک سنبھالتے ہوئے لوگوں کو پرسکون رہنے کی تلقین کی اور پیرطریقت ________________________ * مدرس جامعہ دارالعلوم حقانیہ