ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
مولانا عبدالقیوم حقانی مولانا حافظ محمدابراہیم فانی ؒکے ساتھ طالبان کے افغانستان کا ایک یادگار سفر (مئی؍ ۱۹۹۷ئ) فانی صاحبؒ نے علماء وزعماء کے ساتھ طالبان کے افغانستان کا ایک تاریخی سفر کیا تھا ذیل کا مضمون اس کا ایک اقتباس ہے جو علمی ادبی حوالے سے بہت دلچسپ ہے ۔۔۔۔۔۔ (حافظ محمد قاسم حقانی) _____________________ ابھی حضرت گل حقانی سے مذاکرہ جاری تھا کہ اچانک جامعہ دارالعلوم حقانیہ کے فاضل اور سابق مدرس مولانا شمس الرحمان حقانی اپنے اساتذہ کی آمد کا سن کر اپنے فوجی ہیڈکوارٹر غنی خیل اولسوالی سے طورخم گمرک پہنچ گئے ۔ جہاں ہم لوگ بیٹھے تھے ، ان کے آنے سے رونقِ محفل دوبالا ہوئی کہ اپنے بے تکلیف دوست بھی ہیں اور مخلص تلمیذ بھی ۔ میں نے اپنے مہمان دوست مولانا ابو طاہر اسمٰعیل مدظلہٗ سے ان کا تعارف کراتے ہوئے عرض کیا کہ مولانا ایک جید فاضل ‘ ایک لائق مدرس‘ ایک محقق عالم ہونے کے ساتھ ساتھ اوّلین روز سے میدان جنگ کے نڈر سپاہی اور تحریک طالبان کے اوّلین کارکن بھی ہیں ۔ اس وقت اس علاقہ کے اولسوال (حکمران) ہیں ۔ تحریک طالبان کے دوران جامعہ حقانیہ میں تدریس کرتے رہے اور تحریک میں عملاً بھر پور شرکت بھی کرتے رہے ۔ تو اس پر مولانا محمد ابراہیم فانی صاحبؒ نے برجستہ شعر پڑھا … ؎ ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی تو محفل کشت زار زعفران بن گئی ۔ مولانا ابو طاہر اسمٰعیل مدظلہٗ نے اسی پس منظر اور پیش نظر کے حوالے سے کچھ اشعار سنائے ،تو طالبان کی کامیابی اور فتح مبین کا ذکر چل پڑا ۔ مولانا محمد ابراہیم فانی نے اس موقع پر فتح مبین کے حوالے سے کلام سنایا جو جامعہ حقانیہ میں فتح کابل کے موقع پر’’ فتح مبین‘‘ کانفرنس کے حوالے سے لکھا گیا تھا جس کے چند اشعار نذرِ قارئین