ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
جناب ابرا ر خٹک * مولانا محمد ابراہیم فانیؔ ’’تا نہ پنداری کہ تنہامی روی!‘‘ انھیں فنا ہوناہی تھا کیونکہ کسی فانی کو اپنے فنا ہونے کا اتنا شاید ہی یقین ہو، جتنا فانیؔ کو تھا ۔عربی زبان وادب کے لامتناہی ذخیرے میں انھوں نے اپنے تخلص ؔکے لیے جس لفظ کا انتخاب کیا وہ ’’فانی‘‘ؔ تھا کہ تیقن کی حد تک انھیں فنا ہونے کا احساس تھا ۔اے وائے !ہم‘ کہ یوں جی رہے ہیں جیسے ’’فانیؔ ‘‘کے رستے پر جانا ہی نہیں؟ فانی صاحبؔ آہنگ سے کہیں زیادہ فرہنگ کے آدمی تھے،لفظ و معنی کا شعوری ادراک ان کو جس طرح ودیعت ہوا تھا،بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔وہ شخص ہی عجب تھا،غضب کا سخن فہم،ادب شناس ، نکتہ سنج اور عالمِ باکمال۔ دل، قرآن و حدیث میں ڈھلا ہوا ،روح ،زبان وادب کی شیدا اور تن سادگی کا عملی نمونہ؛ان تینوں کے امتزاج کا نام مولانا ابراہیم فانی ؔتھا۔وہ حقیقی معنوں میں عالمِ اقدار وروایات تھے،والد مرحوم نے جہاں بٹھایا وہاں سے جنازہ اٹھا،جامعہ حقانیہ ،اکوڑہ خٹک میں اسلاف کی روایات کے امین،تقریر ، تحریر و تبلیغ کے ماہر،نفسیات و طریقہ ہائے تدریس میں بے مثل،کتب بینی وانشاپردازی ان کا اوڑھنا بچھونا،فنِ شعر کے نباض و امام،علم الاعداد و عروض میں یکتائے عصر۔ درمیانہ قد،کھلی پیشانی،ہلکے آبرو،سفید رخسار،ہلکا بدن،لمبی مگر چھدری داڑھی،سر پر موسمی ٹوپی،عینک لگائے فانیؔ صاحب یاد آتے ہیں تو بے ساختہ ان کے علمی و ادبی زمزمے بھی ذہن پر نقش ہونے لگتے ہیں،علم وادب،تاریخ و فلسفہ ،کے کتنے رنگ تھے جو ان کی زبان سے قلب و روح کے لوح پر نقش ہوئے،مگرفانیؔ صاحب کو بھولنا ممکن نہیں کہ وہ اپنی یاد خود دلاتے رہیں گے۔دارلعلومِ حقانیہ نے شاید ہی ان جیسا سپوت دیکھا ہو ،جو نکتہ رس بھی تھا، نکتہ سنج بھی،فصاحت و بلاغت کی گہرائیوں میں اترنے والا بھی اور علم بیان و بدیع کا شناور بھی۔شعر و ادب کا جو ذوق ان کو ودیعت ہو ا تھا، انہی کا خاـصہ رہا‘اور اس مادرِ علمی میں جہاں گلستانِ نبوت ا کے منتخب پھول ،مختلف _______________________________ * استاد شعبۂ اردو ،گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج،نوشہر ہ abrar.khattak@yahoo.com