ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
قاضی محمد نسیم کلاچوی* علم و تقویٰ کا بحرِناپید حضرت باچا صاحب ہم سے جدا ہوگئے موت سے خلاصی کی کوئی صورت نہیں ۔ مرنا ہر کسی نے ہے لیکن خوش قسمت مرنے والا مسلمان وہ ہے جس کے لئے اعلان خداوندی قرآن مجید میں محفوظ ہے کہ ’’فلھم اجرو غیر ممنون‘‘ کہ جولوگ ایمان لائے اور اچھے کام کئے توان کے لئے ایسا اجر ہے جو کبھی ختم نہ ہوگا۔ بلکہ ان کا اعمالنامہ برابرلکھا جاوے گا۔ روایات میں صدقات جاریہ کی مثالیں شاہد ہیں۔ حضرت باچا صاحب ؒ کے متعلق مضمون لکھنے کا حکم برادرم مکرم مولانا انوار الحق باچا صاحب نے دیا تو حقیقت یہ ہے کہ ع چہ نسبت خاک را باعالم پاک کہاں باچا صاحب کی ذات بابرکات‘ صاحب علم و عمل صاحب کی کمالات و کرامات اور کہاں یہ بے علم و عمل آپ کے کمالات اور فضائل کا بیان مجھ ناچیز کی قوت سے باہرہے۔ اس طمع سے کاغذ قلم اٹھایا کہ شاید خریدارن یوسف میں نام شامل ہوکر ذریعہ نجات بن جائے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ تو بڑے رحیم و کریم ہیں۔ حضرت باچا صاحب ؒ ایک جوہر ‘ایک موتی بے بہا تھے: اللہ تعالیٰ نے ان کو جامع کمالات و صفات بنایا تھا۔ پندرہویں صدی کے اس پرفتن و پرآشوب دور میں درحقیقت باچا صاحب ؒ اس روایت کے سچے حقدار اورمصداق تھے کہ اگر دنیا میں کسی جنتی کو دیکھنا ہو توان کو دیکھئے اور واقعتاً باچا صاحب کو دیکھنے سے خدا یاد آجاتا تھا لیکن فیصلہ خداوندی تو نموداار ہونا ہی تھا اور ہوگیا۔ حیف در چشم زدن صحبت یار آخرشد روئے گل سرندیدیم و بہار آخرشد اور افسوس کہ یہ دولت بے بہا ہم سے بہت جلد چھن گئی اور ہائے افسوس کہ ہم ان سے کچھ حاصل نہ کرسکے۔ حضرت باچا صاحب ؒ بہت سارے اوصاف حمیدہ کے مجموعہ بلکہ خزینہ تھے اور خاصان بارگاہ الہٰی میں سے تھے ‘ کیوں نہ ہوتے کہ حضرت باچا صاحب ؒ حضوراکرم ا کی ہدایات او رتعلیمات کے پکے اور سچے عاشق اور دن رات ان پر عمل پیرا تھے اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کی طرز زندگی کے رنگ ڈھنگ سے رنگے ہوئے تھے۔ حضرت باچا صاحب ؒ کے چند ایک خصوصی امتیازات میں فنا فی اللہ ‘ تواضع (عاجزی) اور سخاوت ہر ایک _____________________________ * مدرسہ عربیہ نجم المدارس کلاچی