ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
مولوی محمد نعیم حقانیؔ * تیری یاد کب تک رلائے گی،اے فانی ؔ! اللہ اکبر !آج وہ دن بھی آگیا کہ حضرت استاذ محترم کی جدائی کا قصہ لکھ رہا ہوں یہ تو اٹل حقیقت ہے کہ اس جہاں میں ہمیشہ کے لئے کسی نے بھی نہیں رہنا،بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا خود ہی فانی ہے جو خود فانی ہو اس میں کوئی باقی کیا رہے گا ۔ میرے دل میں تھا کہ کہوں گا میں جو یہ دل پر رنج وملاں ہے وہ جب آ گیا میرے سامنے تو نہ،رنج تھا ،نہ ملال تھا راقم کو اللہ رب العزت نے استاد محترم کے ساتھ صحبت کا شرف کئی مرتبہ حاصل ہو ا ہے کیوں کہ درس گاہ کے علاوہ کبھی حضرت کی رہائش گاہ اور کبھی کمرے میں جاکر ان کی خدمت اور صحبت کاموقع ملا کرتاتھا ۔اکثر لوگوں کی جدائی کا غم آنکھوں سے غمِ اشک روانہ کرتی ہے۔ مگر استاذ محترم کا صدمہ صرف آنکھوں سے غمِ اشک نہیں بلکہ غمِ اشک کے سمندر میں دل کو ڈبو کر تڑپا رہی ہے۔ پی گئی کتنوں کا لہو تیری یاد غم تیرا کتنے کلیجے کھا گیا حضرت مولانا حافظ محمد ابراہیم فانی صاحب ؒ کی اس دنیا سے رحلت کی خبرجب ۲۶ فروری بروز بدھ صبح کی نما ز کے بعد جامعہ تک پہنچی تو علماء اور طلباء کے جگر کٹ گئے ،قدم لڑ کھڑا گئے ،چہرے مرجھا گئے،آنکھیں اشک خون بہانے لگیں ،آنسوؤں کی بوندا باندی ہورہی تھی اللہ تعالی نے حضرت استاذ محترم ؒکو عجیب صفات وکمالات سے نوازا تھا جو متنوع تھیں ۔ کہیں میں غنچہ ہوں واشد سے اپنی خود پریشان ہوں کہیں گوہر ہوں اپنی موج میں میں آپ عطا ہوں کہیں میں ساغرگل ہوں،کہیں میں شیشہ مل ہوں کہیں میں شور قلقل ہوں کہیں میں شور مستاں ہوں کہیں میں برق خرمن ہوں کہیں میں ابر گلشن ہو کہیں میں اشک دامن ہو ں کہیں میں چشم گریاں ہوں کہیں میں عقل آداء ہوں کہیں ممنون رسوا ہوں کہیں میں پیر دانا ہوں ،کہیں میں طفل ناداں ہوں کہیں میں سر سر وموزوں ہوں،کہیں میں بید ممنون ہوں کہیں گل ہوں ظفر میں اور کہیں خار بیابان ہوں ____________________ * متخصص بجامعہ دارالعلوم حقانیہ