ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
مولانا سعید الحق جدون* اے ابراہیم! ہم تیری جدائی سے یقینا غمگین ہیں ہم نے چاہا تھا نہ ہو لیکن ہوئی صبح فراق موت کا جب وقت آجاتا ہے ٹلتا ہی نہیں (فانیؔ) حضرت مولانا محمد ابراہیم فانی صاحب اس فانی دنیا سے فنا ہوکر چلے۔ ان کی جدائی پر دل مغموم اور آنکھیں اشکبار ہیں‘ آنسوئوں کی موسلا دھار بارش نہیں تھمتی۔ اس صدمے کے پریشان حال منظر کو ڈاکٹر عارفی صاحب نے اس شعر میں پرویا ہے ۔ صرف دو آنسو بہت تھے شرح غم کے واسطے کیا خبر تھی منتظر دریا کا دریا دل میں ہے فانی صاحب سے نہ صرف یہ کہ میرا ایک تعلق تھا بلکہ وہ میرے مربی ‘ میرے خیرخواہ اورہمدرد تھے‘ راقم اثم جب دارالعلوم حقانیہ میں دورہ حدیث کا طالبعلم تھا‘ تو ماہنامہ الحق میں میرا ایک مضمون ’’اپریل فول‘‘ کے حوالے سے شائع ہوا‘ پھر فانی صاحب نے بلوا کر حوصلہ افزائی فرمائی اور لکھنے کے حوالے سے تربیت دی۔ فرمایا بھائی! لکھنے کے حوالے سے ایک وبا پھیل گئی ہے‘ بندہ نے پوچھنے کی جسارت کی‘ حضرت کون سی وبا؟ فرمایا : تسریق یعنی دوسروں کی کتابوں سے چوری کرنا۔ اسی اثناء میں ایک کتاب کے مصنف کے بارے میں بحث چھڑ گئی تو میں نے عرض کیا حضرت اس مصنف کے بارے میں کیا خیال ہے؟فرمایا یہ صاحب تو تسریق نہیں تشریق (پھاڑنے) سے کام لیتا ہے۔ مسکرانہ انداز میں فرمایا۔ حافظ صاحب! مطلب یہ ہے کہ قینچی سے کام لیتا ہے۔ یہ حضرت سے پہلی ملاقات تھی‘اس کے بعد فارغ اوقات میں فانی صاحب کے دولت کدے پر حاضری کی سعادت حاصل ہوتی تھی۔ فراغت کے بعد ایک دومہینے میں ایک دفعہ خدمت اقدس میں حاضری نصیب ہوتی کیونکہ ہم جیسے طفل مکتب کے لئے فانی صاحب کی علمی محافل اور تربیتی مجالس کے علاوہ اور کیا چاہیے تھا۔ اندھے کو کیا چاہیے صرف دو آنکھیں۔ لیکن افسوس آج ہم ان علمی محافل سے محروم ہوئے۔بقول فانی اب کہاں وہ بزم وحلقہ ہائے علم وفن حسرتا ایسی محافل سے ہوئے محروم ہم فانی صاحب مطالعہ کے ذوق سے سرشار تھے‘ ان کے مہمان خانے کا انداز عام مہمان خانوں سے مختلف تھا۔ کیونکہ عام طورپر مہمان خانوں میں کرسیاں ‘ صوفے ‘ قالین‘ ڈبل بیڈ‘ سنگل بیڈ‘ الماریاں‘ مصنوعی پھول پودے _________________ * گائوں چینئی‘ تحصیل ٹوپی‘ ضلع صوابی