ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
نقش آغاز: ﷽ راشد الحق سمیع حقانی پیر طریقت حضرت مولانا محمد رحیم اللہ عرف باچا صاحب کی رحلت حضرت مولانا محمد ابراہیم فانی ؒ کی لرزہ دینے والی جدائی کے تیسرے دن ایک اور سانحہ ء فاجعہ نے بچی کچھی صبر و توانائی کی جمع پونجی بھی لُوٹ لی۔ صبح سویرے ہر جانب سے حضرت باچا صاحب کی رحلت کی افسوسناک خبریں آنے لگیں۔یقین جانئے کہ صبروبرداشت کا جو پُشتہ حضرت فانی صاحب کی جدائی کے سبب شکست و ریخت کے باعث کمزور ہوچلا تھا ،اچانک حضرت باچا صاحبؒ جیسی ملکوتی صفات کی حامل شخصیت کی وفات سے وہ بھی منہدم ہوگیا۔ ع گھر میں کیا تھا جو تیرا غم اُسے غارت کرتا پیکر حلم و تواضع ،مردِ درویش ، مردِ قلندر، تقویٰ کے پہاڑ ، صبر و توکل کے کوہ گراں حضرت مولانا محمد رحیم اللہ عرف باچا صاحب اس گئے گزرے دورمیں اپنی مثال آپ اور قرونِ اولیٰ کے بزرگوں کی زندہ جاوید تصویر تھے۔ آپ محاوروں، مبالغوں،ادبی استعاروں اورافسانوی گھڑی ہوئی کہانیوں کے کردار کی حامل شخصیت نہیں تھے بلکہ پوری ذمہ داری کیساتھ یہ لکھ رہا ہوں کہ اس مادیت کے گئے گزرے دور میں حضرت مولانا محمد رحیم اللہ باچا صاحب اپنی مثال آپ تھے ۔ نہ پوچھ ان خِرقہ پوشوں کی ارادت ہو تو دیکھ انکو یدِ بیضا لئے پھرتے ہیں اپنی آستینوں میں حضرت والد صاحب مدظلہ نے ان کے حین ِ حیات میں کئی مرتبہ ہمیں فرمایا کہ حضرت باچا صاحبؒ جیسی مبارک اور برگزیدہ شخصیت کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے یہ شخص حضراتِ صحابہ کرام ؓاور تابعین عظامؒ کے قافلے سے چلتے چلتے اس عہد میں رہ گئے۔حضرت باچا صاحبؒ کی بابرکت نورانی شخصیت پر مجھ جیسے سیاہ کار اور بے بضاعت کیا روشنی ڈالیں گے؟ او رکیا مدح و تعریف کرسکیں گے؟ جن حضرات نے حضرت باچا صاحبؒ کو نہیں دیکھا آج اگر اِن کے سامنے اُن کی دلکش شخصیت اوراِن کے بلند وبالا ملکوتی صفات کی حامل ہستی کے بارے میں اگر صدہا صفحات بھی لکھے جائیں تو بھی اِن کا کما حقہ احاطہ نہیں کیا جاسکتا اور نہیں سمجھا جاسکتا ہے۔ بس یوں سمجھئے کہ سفید لباس ، سفید چادر،سفید طویل داڑھی اورانتہائی سرخ وسفید خوبصورت چمکتی ہوئی پیشانی ،لب ،حسن اخلاق اور تکلم کی شیرینی سے گویا کھلتا ہوا گلاب المختصر انسانی سراپے میں فرشتہ زمین پر نظر آتے تھے۔ ؎ آفاقہا گردیدہ ام مہر بتاں درزیدہ ام بسیار خوباں دیدہ ام لیکن تو چیز دیگری بہرحال حضرت مولانا رحیم اللہ باچا صاحبؒ خود فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ میں اپنے بھائی کو دارالعلوم میں داخلے کے