ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
مولوی رحمت اللہ متقی * ایک جانباز مدبِّر سے ہوا خالی جہاں آج ہر آنکھ میں آنسو ہیں شراروں کی طرح کیا صدمہ ہے کہ ہر روح مغموم ہوئی ایک جانباز مدبِّر سے ہوا خالی جہاں پھر سے دنیا کسی انسان سے محروم ہوئی موتُ العالِم، موتُ العالَم! فانیؔ صاحب کی دل نشین عظمت،آپ کی جلالتِ شان،آپ کے پُرکشش اخلاق،آپ کی بے ریا للہیت،آپ کی فنائیت فی اللہ کے عظیم مظاہر، آنکھوں کے سامنے اپنی پوری رعنائی اور آب و تاب کے ساتھ گھوم رہے تھے۔ ہم طالب علم لوگ، جس روحانیت کے پیکر اور تروتازہ شجرِ سایہ دار کی پُر سکون چھاؤں میں بیٹھ کر دنیا کی تمام تھکاوٹیں اور پریشانیاں بھول جاتے تھے اوردل اتنا خوش ہوجاتا تھا ،جیسے ہمیں دنیا کی سب سے بڑی خوشی مل گئی ہو...آج وہ شجر رہا اور نہ ہی اس شجر کا سایہ ہی کہیں دیکھنے کو ملتا ہے۔ ہم ،جن کی قرآن و حدیث کی پُر کیف لذت سے لبریز مترنم آواز پر ہمہ تن گوش ہوجایا کرتے تھے، آج وہ مسرورکن زمزمے ہم سے بہت دور چلے گئے ہیں۔ وہ آواز اب ہمیشہ کیلئے خاموش ہوگئی ہے۔ حضرت استاذ نور اللہ مرقدہ ان شخصیات میں سے تھے، جنہوں نے اپنی ساری زندگی دین مبین کے لیے وقف کر دی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں جتنی عظیم صلاحتیں ودیعت فرما رکھی تھیں، انہوں نے وہ اللہ ہی کے راستے میں ایسے زبردست طریقے سے استعمال کیں ہیںکہ اس طرزِحیات کو دیکھ کر بے ساختہ رشک سا آتا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنے پیارے اللہ کی رضا کے واسطے دنیا کو چھوڑ رکھا تھا،اسی لیے میرا وجدان کہتا ہے: ان کی پُر سکون حیاتِ مستعار کا یہ ایک بہت بڑا راز تھا کہ خدا ہر تقدیر سے پہلے اُن سے پوچھا کرتا تھا۔۔۔ ’’اے میرے بندے! بتا تیری رضا کیا ہے؟؟؟‘‘ ____________________________ * شریک دورہ حدیث ‘دارالعلوم حقانیہ rehmatkhan_313@yahoo.com