ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
پروفیسر محمد افضل رضاؒ*ؔ فانی صاحب کی کہانی خود ان کی زبانی (نالہء زار پر لکھے گئے تاثرات) میرے عالم فاضل شاعراور ادیب دوست جناب مولانا حافظ محمد ابراہیم فانیؔ نے جب مجھے اس شعری مجموعے کے بارے میں چند سطور تحریر کرنے کا اعزاز بخشا تو میں قدرے سہم گیا۔ اس لئے کہ من آنم کہ من دانم۔ کہاں میری علمی کم مائیگی اور کہاں ایک علامہ دوست کی معیاری شاعری کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار، اس پر مستزادیہ کہ جہاں میں جناب فانیؔ کی دوستی اپنے لئے مایۂ افتخار سمجھتا ہوں۔ وہاںاردو، ، فارسی، عربی، زبانوں پر ان کے بے مثل عبور کبھی کبھی مجھے شدید احساس کمتری میں مبتلا کردیتا ہے۔ ان کی فقیرانہ فطرت اور قابل رشک علمیت، پشتو ‘ فارسی اور عربی کے جدید و قدیم شعری سرمائے سے ان کی بھرپور آگہی، ان چاروں زبانوں میں ان کی شعری تخلیق کے معیاری تجربے، ان میں سے ہر ذیلی عنوان الگ الگ تفصیلی تحریر کا متقاضی ہے۔ آمدم برسر مطلب! طویل دیباچوں اور پیش لفظوں کا دور شاید گزرگیا۔ قارئین کرام مختصر طور پر کتاب اور اسکے مصنف کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں، اسے میری ضد کہئے کہ ایسے موقعوں پر میں مصنف دوست کی کہانی انکی زبانی لکھا کرتا ہوں تاکہ ادیبات کے محقق کو مستقبل میں یہ زحمت اٹھانا نہ پڑے کہ مذکورہ شاعر و ادیب کون تھا، کہاں کا رہنے والا تھا، زندگی کے حالات کیا تھے وغیرہ وغیرہ…بس تو میری درخواست کو شرف قبولیت بخشتے ہوئے میرے اس درویش صفت دوست نے لکھا: مورخہ ۱۵اَپریل۵۴ء کو ضلع صوابی کے مشہور قصبہ زروبی میں متکلم اسلام حضرت مولانا عبدالحلیم صاحب صدرالمدرسین دارالعلوم حقانیہ کے ہاں بندہ کی ولادت ہوئی‘ ناظرۂ قرآن کریم اپنے گھر پڑھا اور یہ بندہ پر اللہ تعالیٰ کی خصوصی نظر کرم ہے کہ پہلے پارہ کے دو تین ورق پڑھنے کے بعد دیگر پارے بغیر استاد کے پڑھے۔ بعدازاں اپنے گاؤں زروبی کے مڈل سکول میں داخلہ لیا اور سکول کے ساتھ ساتھ اپنے والدصاحب مرحوم سے دینی رسائل اور فارسی نظم کے رسالے پڑھتا رہا، مثلا کریما پنچ کتاب اور گلستانِ سعدی وغیرہ۔ __________________ * نامور دانشور ‘ ادیب ‘ شاعر ‘ نقاد‘ ڈرامہ نگار