ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
مولانا محمد فہد مردانی فانی کی دار فانی سے رحلت دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے مایہ ناز استاذ حدیث اور شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق ؒ کے مایہ ناز شاگرد رشید ومولانا عبدالحلیم زروبوی ؒ کے فرزند سعید حضرت مولانا ابراہیم فانی ؒ اس دار فانی سے رحلت کرگئے۔بلاشک و شبہ مولانا کی رحلت عالم اسلام کے لئے بہت بڑا نقصان ہے حضرت فانی ؒدارالعلوم میں طالب علمی کے زمانہ سے لے کر درس وتدریس تک کا وقت بہت خوشگوار انداز میں گزارا۔ حضرت فانی کاشمار ان علماء کرام میں سے تھا جو علوم وفنون میں کامل دسترس رکھتے تھے۔فقہ ونحو کے پہاڑ اورادب عربی اوردیگر علوم کے بحر ذخار تھے۔ اس کی رحلت سے علوم کا وہ خزانہ دب گیا جس کا دوبارہ پایا جانا مشکل ہے۔ چراغ علم بجھا ہے یقین نہیں آتا یہ سانحہ بھی ہوا ہے یقین نہیں آتا آپ اپنے وقت کے جلیل القدر علماء اور مسلم الثبوت شعراء ‘وادبا میں سے تھے‘ خاص کر شعر وشاعری میں ایک اعلیٰ وارفع مقام رکھتے تھے۔وہ وسیع المطالعہ تھے‘ اورچلتے پھرتے انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتے تھے۔ درس وتدریس میں حضرت فانی ؒ علوم و معاون کے سمندر تشنگان علوم کی پیاس بجھاتے رہے اور طلباء کی واقفیت کے دائرے کوانتہائی وسیع کردیتے۔ مشہور مقولہ ہے کہ پھل کا اچھا ہونا درخت کے اچھے ہونے کی علامت ہے ۔ حضرت فانی صاحب ؒ کے ہزاروں تلامذہ اس بات کی نشانی ہے ۔۳۵‘۴۰ سال سے زائد درس و تدریس کی مدت حضرت فانی کے حلقہ درس علم و عمل اور فضل وکمال کے کیسے کیسے آفتاب ومہتاب تیار ہوتے جو آج دنیا کے مختلف اطراف میں نمایاں دینی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ مولانا نے اپنی زندگی دین اسلام کی خدمت کے لئے وقف کررکھی تھی‘ چلتے پھرتے ‘ اٹھتے بیٹھتے ‘ دوران گفتگو ایسے موتی بکھیرتے کہ سننے والا اسے باسانی اپنے فہم میں پروسکتے اوراپنے علوم کے سمندر سے لوگوں کو سیراب کرتے اوراسی طرح ان کا قلم بھی رواں دواں رہتا۔ اس لئے ان کی تصانیف کافی ذخیرہ تشنگان علم کے لئے بحرذخار کی مانند پیاس بجھا رہی ہے۔