ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
مولانا محمد رحیم حقانی* مادر علمی سے علمی و ادبی چراغ کی جدائی جس نے اپنی پوری زندگی درس و تدریس میں صرف کی ہو ، ادبی ذوق وشوق عام کیا ہو اور جس نے اندرون و بیرون ملک اکابرین کی وفات پر منظوم الوداعی مراشی کلمات سفینہ تحریر کو سپر د کیے ہوں مجھ جیسا پسماندہ علاقے تالاش دیر سے تعلق رکھنے والے ایک گمنام شاگرد حضرت مولانا محمد ابراہیم فانی نور اللہ مرقدہٗ کی وفات و خدمات پر کیا لکھ سکتا ہے ۔ تجھے بھلا دیں گے اپنے دل سے یہ فیصلہ تو کیا ہے لیکن نہ دل کو معلوم ہے نہ ہم کو جیئں گے کیسے تجھے بھلا کے کچھ لکھوں گا تو حق ادا نہیں ہو سکتا بر صغیر کے سب سے بڑے علمی و دینی ادارے دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کا استاذ الحدیث ہونا ہی ان کی شان مرتبت کے لئے کافی ہے ۔ میں ابتدائی درجوں کا طالب علم تھا نفحۃ العرب ، مقامات اور پھر متبنی و حماسہ وغیرہ ادبی کتابوں میں عرب کے شاعروں کے آپس کے جھگڑوں ، مقابلوں اور اسی طرح ان کے آپس میں طنزیہ نمکین اور عجیب و غریب جملے جب سننے اور پڑھنے کو ملے مثلاً فما انصف القوم ضبہ الخ خبث اسی طرح فخرجہٗ غرمول وغیرہ وغیرہ تو میں حیران و پریشان رہ گیا اور سوچ رہا تھا کہ اے اللہ تعالیٰ میرے والا بزرگوار نے تو مجھے علم دین حاصل کرنے کے لئے برصغیر کی سب سے بڑے علمی و دینی درسگاہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک بھیجا تھا ۔ صراط مستقیم پر آنے کے لئے دارالعلوم کا رخ اختیار کروایا تھا یہ میں کیا سن رہا ہوں ؟ یہ کیسا نصاب ہے اور کیسے اساتذہ ہیں ؟ اور یہ ہمیں کیا پڑھا رہے ہیں اورمیرے سامنے ادب ، احترام ، تقویٰ اولیٰ اور غیر اولیٰ کا کیا خاکہ بن رہا ہے اگر ادب ضد ہے بے ادبی کا تقویٰ ضد ہے خلاف تقویٰ کا اسی طرح اولیٰ اور غیر اولیٰ آپس میں ضدین ہیں تو کیا میں مدرسہ میں بے ادبی ، خلاف تقویٰ اور غیر اولیٰ سیکھنے کے لئے آیا ہوں اس زمانے میں حضرت مولانا محمد ہاروت بابا نور اللہ مر قدہٗ ہمیں منطق کی کتاب ایسا غوجی پڑھا یا کرتے تھے ،فرمایا کرتے تھے کہ تم میں اور عورتوں میں _____________________ * سابق سیکرٹری تعلیمی کمیشن‘ خیبرپختونخوا