ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
مولانا حافظ محمد قاسم حقانی حرمین شریفین سے عقیدت ومحبت پروفیسر رشید احمد صدیقی اپنی کتاب ’’گنج ہائے گرانمایہ ‘‘ میں لکھتے ہیں ۔ ’’موت سے کسی کو مفر نہیں لیکن جو لوگ ملی مقاصد کی تائید وحصول میں تا دم آخر کرتے رہتے ہیں ، وہ کتنی ہی طویل عمر کیوں نہ پائیں ، ان کی وفات قبل از وقت اور تکلیف دہ محسوس ہوتی ہے ۔ ‘‘ حضرت مولانا محمد ابراہیم فانی ؒ پر یہ جملہ کامل طور صادق آتا ہے ، آپؒ نے اپنی زندگی علم وادب کی نشرواشاعت اور ترقی وترویج کیلئے وقف کردی تھی ، آنحضرت ا اور حرمین شریفین سے آپ کی محبت دیدنی تھی ۔ ۲۰۱۰ئ میں والد محترم حضرت مولانا عبدالقیوم حقانی مدظلہٗ سفر حج پر تشریف لے گئے تھے ، فانی صاحب ؒ مبارکباد کے لیے جامعہ ابوہریرہ تشریف لائے ، اس وقت جو علم وادب سے بھر پور مجلس ہوئی تھی ، مولانا مفتی شاہ اورنگزیب حقانی نے اسے ضبط کیا تھا ، وہی نذرِ قارئین ہے … حضرت مولانا محمد ابراہیم فانیؔ جامعہ ابوہریرہ تشریف لائے، مولانا عبدالقیوم حقانی کو حج کی سعادت حاصل کرنے پر منظوم ہدیۂ تبریک پیش کیا، اس موقع پر انہوں نے مولانا عبدالقیوم حقانی کے تحریری کام کے حوالے سے ایک اہم بات یہ بھی ارشاد فرمائی کہ : ’’احقر نے اپنے والد مکرم صدر المدرسین شیخ الحدیث مولانا عبدالحلیم زروبویؒ کے انتقال کے بعد اپنی پہلی کتاب ’’افاداتِ حلیم‘‘ مرتب کرکے شائع کی تو حقانی صاحب بہت خوش ہوئے اور مجھے باربار کہتے رہے کہ ’’تم صاحبِ تصنیف بن گئے‘ تم صاحبِ تصنیف بن گئے‘‘۔ میں نے عرض کیا : یہ کیا مشکل ہے تم بھی تو صاحبِ تصنیف بن سکتے ہو۔ امام اعظم ابوحنیفہؒ سے متعلق تمہاری آٹھ دس قسطیں ماہنامہ الحق میں چھپ چکی ہیں، انہیں مرتب کرلو تو تم بھی صاحبِ تصنیف بن جاؤگے۔ میرا اتنا کہنا تھا کہ حقانی صاحب نے دوسرے روز ماہنامہ ’ الحق‘ سے اپنے مضامین کی تمام قسطیں فوٹو کاپی کرالیں اور کام شروع کر دیا، پھر مسلسل اضافے کرتے رہے اور دیکھتے ہی دیکھتے مولانا حقانی کی شہرہ آفاق کتاب ’’دفاع امام ابوحنیفہؒ ‘‘مرتب ہو کر منظر عام پر آگئی۔ بڑی خوبصورت‘ دیدہ زیب‘ ٹائٹل زرد رنگ کا جاذبِ نظر کاغذ۔ میں نے دیکھا تو بے اختیار میرے منہ سے نکلا ’’فَاقِعٌ لَّوْنُہَا تَسُرُّ النَّاظِرِیْنَ (البقرۃ:۶۹) (خوب گہری جو دیکھنے والوں کو اچھی معلوم ہوتی