ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
از : حضرت مولانا محمدابراہیم فانیؔ ؒ داستانِ دلکشاء درزمانِ ابتلاء جناب مولانا محمد ابراہیم فانی صاحب ‘دارالعلوم حقانیہ کے جید استاذ الحدیث ہونے کیساتھ ساتھ کہنہ مشق شاعر‘ادیب‘مصنف و محقق ہیں‘ تقریباً پینتیس برس دارالعلوم حقانیہ میں منصب تدریس پر فائز رہے۔ موصوف نے آئی سی یو جیسی نازک جگہ میں بھی کتاب و قلم اور ادب وشاعری سے رشتہ جوڑے رکھا اور شدید بیماری بلکہ غنودگی کی حالت میں اپنی یاداشتیں لکھنا شروع کیں‘ جسکا دوسرا حصہ نذر ِ قارئین ہے ۔ان شاء اللہ آئندہ شمارے میں تفصیل سے اس کی باقی اقساط شائع کی جائیں گی …………… (ادارہ ) __________________ حضرت الاستاذ فانی صاحب نے غنودگی کی حالت میں مولانا سمیع الحق کے بارے میں پوچھا کہ وہ کہاں ہیں ‘ ہم نے جواباً کہاکہ وہ کراچی تشریف لے گئے ہیں‘ فانی صاحب نے فرمایا کہ مولانا صاحب اور دیگر اکابرین ہمارا ملی اثاثہ ہیں۔ ان کواحتیاط کرنا چاہیے اور بے جا اسفار میں نہیں الجھنا چاہیے کیونکہ یہ حضرات ہمارے لئے اثاثہ اور سرمایہ حیات ہیں۔ ہم ان پر بجا طورپر فخر کرسکتے ہیں۔کراچی کا حال تو آپ کو معلوم ہے کہ وہاں علماء دیوبند کے ساتھ کیا سلوک کیا جارہا ہے‘ وہاں مدارس کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے۔ ہرروز علماء دیوبند کی لاشیں گرائی جاتی ہیں‘ بغیر ضرورت کے گھروں سے نہیں نکلنا چاہیے۔ قول شیخ القرآن شاہ منصوری: جب میں ۱۹۷۶ء میں شاہ منصوری کے ساتھ دورہ تفسیر پڑھتا تھا‘ تو دوران ختم قرآن پاک آپ نے فرمایا (بطور نصیحت کسی نے ان کو لکھا تھا کہ بابا جی مجھے نصیحت کرے) تو آپ نے فرمایا کہ اے بچو! سنو! ھذا زمان السکوت والتزام البیوت چونکہ وہ گرمی کا زمانہ تھا اور گرمی کاموسم تھا تو لوگ توت کی شربت کو بہت پیتے تھے‘ تو میں نے اس جملے میں اضافہ کیا کہ ھذا زمان السکوت والتزام البیوت و شرب عسواۃ التوت تو دیکھو ۷۶ء میں ہمیں شیخ صاحب یہ تلقین کررہے تھے‘ اس وقت کیا حال ہے اوراس وقت کیا حال تھا۔ ہم ان نابغہ روزگار شخصیات کو اسلامی انقلاب کے بپا کرنے اور شرعی نظام کے نفاذ کرنے کے لئے جدوجہد پر احترام نہیں کرتے وہ تو بہرحال مقتداء ہے اور ہمیں ان پر تنقید کا حق نہیں