ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
مولانا شوکت علی ‘ارمڑ میانہ آہ! کھویااِک گوہر نایاب گذشتہ ماہ بتاریخ ۲۶ فروری بروز بدھ بوقت ۳ بجے سحری میں بسبب جانکا مرض ایک عظیم ہستی ، درویش صفت عالم دین ، اسلامی افکار و نظریات کا ترجمان ، مصنف ، ادیب ، شیخ الحدیث دیو بند ثانی (دارالعلوم حقانیہ) ، مرد قلندر ، بندہ کے استاد مربی ، محسن ، چراغ محفل ، بحر عمیق و مردِ شفیق حضرت مولانا حافظ محمد ابراہیم فانی صاحب ؒ نے دارِ فانی سے رحلت فرماگئے ۔ ایک غزل خواں بلبل نے نہ صرف بندہ کو بلکہ ہزاروں محبین و سامعین کو گلستانِ آباد سے ایک ویراں بیابان پر چھوڑ دیا۔ آہ ! ایک روشن شمع محفل یکایک بُجھ کر اپنے پروانوں کو تاریک اندھیروں میں چھوڑ دیا۔ بندہ خود کو تسلی دے تو کس طرح؟ اور کیسے یہ غم کسی سے شریک کر کے کم کر دے یا اسے فراموش کرکے بھول جاوے؟ خیالک فی عینی وذکرک فی فمی ومثواک فی قلبی فأین تغیب اب ایک طرف بندہ کی علمی کمائیگی حد درجہ اور دوسری جانب سانحۂ کبریٰ بھی حددرجہ اونٹ کی بار چیونٹی پر لاد کرانے کے مترادف ہے ۔ تو بندہ، نا گفتہ حالت ہو کر اپنے استاد محترم فانی صاحب ؒ کی مناقب قلمبند کرنے پر تو قادر نہیں کیونکہ آپکی شخصیت کئی خوبیوں کا مجموعہ تھی ۔ بے بسی کے عالم میں بندہ آپ کے بارے اظہار عقیدت کیسے کرے؟ آپ کے حالات و یاداشتیں : فانی صاحب نے اس چند روزہ زندگی کا آغاز امام المتکلمین صدر المدرسین حضرت مولانا عبدالحلیم زروبوی کے گھر میں آنکھ کھول کر کیا پھردینی مرکزدارالعلوم حقانیہ سے اول تا آخر اور ۱۹۷۸ء میں دستار فضیلت حاصل کی ۔ مشہور ہم مکتب ساتھیوں میں سے حضرت مولانا مفتی شاہ جہان ( حالاً مفتی عرب امارات) شیخ القرآن مولانا قاضی فضل اللہ ایڈوکیٹ ( حالاً امریکہ) ،شیخ الحدیث حضرت مولانا عزیز الدین صاحب ہر یانہ بالا پشاور (شیخ الحدیث ‘مدرسہ حمایت الاسلام غلجی پشاور)اور امیر جمعیت علماء اسلام حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب اور خطیب اسلام مشہور مصنف و ادیب شیخ الحدیث مولانا عبدالقیوم حقانی صاحب شامل تھے۔