ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
مولنا الطاف الرحمن بنوی آہ ! حضرت باچا صاحب ؒکی وفات برادرم مکرم سید نثار صاحب مہتمم جامعہ اسلامیہ آضاخیل ’’دارالعلوم حقانیہ میں میرے شریک رہے ہیںمولانا فضل مولا صاحبؒ کے درسِ مطول شراکت کی خوب یاد ہے ۔ ویسے تو وہ اپنی شرافت اور خوش مزاجی کی بدولت ہم مکتب تمام طالب علم ساتھیوں کے ساتھ قرب ومحبت کا علاقہ رکھتے تھے لیکن اس گنہگار کے ساتھ ذہنی رابطہ سے بڑھ کر عملی رابطہ بھی استوار تھا جس کا عملی ثبوت یہ تھا کہ میں کبھی کبھار اُن کے ساتھ اُن کے گاؤں آضاخیل بھی آیاجایا کرتا تھا اور اسی آمدورفت میں ان کے بڑے بھائی مولانا رحیم اللہ صاحب او رچھوٹے بھائی فرمان اللہ صاحب سے بھی نہ صرف تعارف بلکہ نیاز مندانہ تعلق بھی پیدا ہوا۔جو لوگ اس خاندان کو قریب سے جانتے ہیں اُن سب کے دلوں میں ان تینوں بھائیوں کے پُر خلوص روِیوں ، مہمان نوازی اور فیاضی کا نقش خاصا مستحکم ہے ۔ مجھے اپنی اس خوش قسمتی پر نہ صرف خوشی بلکہ ایک گونہ فخر ہے کہ اُس زمانے سے لے کر آج تک نہ صرف یہ تعلق قائم بلکہ ا س میں مسلسل اضافہ ہوتا آیا ہے ۔ کم وبیش اس پینتالیس سالہ رفاقت میں اب تک کوئی رخنہ واقع نہیں ہوااور دُعا ہے کہ آئندہ بھی تاحیات یہ سلسلہ جاری رہے ۔ مجھے یا د ہے کہ برادرمحترم سیدنثار صاحب راولپنڈی صدر میں قاری سعیدالرحمن کے مدرسہ جامعہ اسلامیہ میں استاد تھے ۔ میں ان سے ملنے اُن کے پاس آیاتھا انہوں نے کہا کہ کوئی آدمی ہے جو مدرسہ بنانے کے لئے کچھ زمین عطیہ دے رہا ہے کیا کرو ں میں نے عرض کیا کہ باچاصاحب ! قرآن وحدیث کی درس وتدریس ہمارا زندگی بھر کا مشغلہ ہے اگر کوئی ازخود پیشکش کررہا ہے تو مدرسہ بنانے میں کیا حرج ہے آئے روز کی تبدیلیوں سے یکسوئی متأثر ہوئے بغیر نہیں رہتی اس پس منظر میں اپنا مدرسہ بساغنیمت ہے بہرحال آضاخیل میں ایک مدرسہ مقدر تھا ، سووہ بنا، اور آج اُس کافیض روز روشن کی طرح عیاں ونمایاں ہے۔ مدرسہ بننے سے پہلے بھی یہ خاندان اپنے آس پاس میں رسوخ کے حوالے سے اچھی شہرت کا حامل تھا لیکن مدرسہ بننے کے بعدا س میں خاطر خواہ اضافہ ہوا جس قدر وقیمت کا اندازہ’’مشرباچا صاحب ‘‘ کے جنازے میں لوگوں کی غیر معمولی کثرت سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔ چونکہ میرا بھی علمی سلسلے کے ساتھ تھوڑا بہت تعلق ہے اور اسی حوالے سے اہلِ علم کے ساتھ میل ملاپ، آمدورفت اور ہم نشینی کے مواقع ملتے رہتے ہیں ۔دوسرے انسانوں کی طرح علماء کرام میں بھی مزاجوں اور وضع قطع کا فرق وتفاوت امر طبعی ہے کسی میں کوئی صفت بہت واضح اور ممتا زہوتی ہے اور کسی دوسرے میں کوئی دوسری صفت زیادہ نمایاں وعیاں ہوتی ہے ۔ مجھے مولانا رحیم اللہ صاحب میں عاجزی وانکساری کی صفت اس درجے میں محسوس