ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
محمد اسلام حقانی * فطرت کے شاعر اچھی اورسچی شاعری ایک سعادت ہے اور فطری ملکہ جو صرف ’’زورِ بازو‘‘ سے ممکن نہیں بلکہ اس کیلئے قدرتی ذہانت، صلاحیت ا ور استعداد کی بھی ضروت پڑتی ہے ۔مولانا حافظ محمد ابراہیم فانی ؔ ایک پختہ مشق شاعرتھے ۔ان کی غزلوں کے کئی مجموعے اردو، پشتو، فارسی اور عربی میں شائع ہوئے ہیں ۔ ان کی شاعری میں خوبصورت لفظوں کا سحر وطلسم تو ہے ہی لیکن جس طرح پھولوں کو گوندھ کرگجرا یا مالا بنائی جاتی ہے ،اس طرح فانی صاحب ؒاپنے احساسات اور خیالات کو پیارے پیارے لفظوں میں سلیقے اور قرینے سے سجاتے ہیں ۔ غزل گوئی میں فانی صاحب نے شاعری کی کلاسیکی روایت سے رشتہ مستحکم اور برقرار رکھا ہے ، اسلوب اورطرزِ ادب میں بھی ان کے یہاں بادۂ شبانہ کی سرمستیاں ہیں اور نمود سحر کا عمل خوابناک اور نشہ بیز وادیوں میں سفر کررہا ہے ۔عشق ورومان ان کا پسندیدہ موضوع ہے ۔ وصل کا حظ بھی ہے اور ہجر کاکربھی، محبوب کی خوش التفائی بھی ہے اور بے مروتی بھی ؎ محفل صاحبِ لاں میں دلکشا کوئی نہ تھا اہل زر کے دیس میں دردآشنا کوئی نہ تھا طعنہ ہائے مگر ہی ہم سہ رہے تھے رات بھر راہ پر جب آگئے تو رہنما کوئی نہ تھا ہم تڑپتے رہ گئے نقشِ کف پاکے لئے جانبِ منزل مگر اک راستہ کوئی نہ تھا چل دیئے سوئے بیاباں جب جنونِ شوق میں وسعت صحرا میں کوسوں دوسرا کوئی نہ تھا دیکھ لی ہیں خلوتوں میں جلوتوں کی لذتیں شامِ غم کی تیرگی میں ہم نوا کوئی نہ تھا ایک اور جگہ تحریر فرماتے ہیں ؎ خون ہوا پروانوں کا شمع کے دیوانوں کا میرے دل کا حال نہ پوچھو لاشہ ہے ارمانوں کا فانی صاحب ؒ کی شاعری میں شادکامیاں بھی ہیں اور محرومیاں بھی ۔ الغرض ،عشق جن تجرباتی مراحل سے گزرتاہے ان کابھر پور اور ادراک ان غزلوں میں درآیا ہے ؎ ________________________ * رفیق موتمر المصنفین