ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
مولانا محمداعزازعلی شاہ * فانی فی اللہ ، باقی باللہ ہوئے حیف صد حیف! قلم کا جگر کیوں شق نہ ہواور دل ودماغ کیوںجواب نہ دے ۔ جبکہ کسی ایک متاع عظیم کے کھوجانے کے ماتم سے فارغ ہوتے ہی اپنی دوسری متاعِ دین ودنیا سے محروم ہونا پڑا۔ ایسا لگتا ہے کہ علم وفضل،زہدوریاضت ، اورادب وصحافت کے ستارے ٹوٹ ٹوٹ کرہم مسافروں کو شبِ دیجور کے حوالے کررہے ہیں۔ بیسویں صدی کی ابتداء تودرحقیقت حزن ثابت ہونے لگاہے ۔ کہ جو ستارہ غروب ہوا کسی نعم البدل کی شکل میں دوبارہ اُبھر ہی نہ سکا ۔ قافلہ حق وصداقت کے آخری سپاہی بھی کتنی تیزی سے ایک ایک کرکے دارِفانی کی سرحدیں عبورکرتے چلے جارہے ہیں۔ ابھی جامعہ دارالعلوم حقانیہ اپنے جوان سال شیخ الحدیث حضر ت مولانا نصیب خان شہید رحمہ اللہ کی جدائی پر نوحہ کناں تھی کہ ۲۵ رَبیع الثانی ۱۴۳۵ھ بمطابق 26 فروری 2014ء کو سحر ی کے وقت جبکہ سپیدۂ سحر آفتاب عالمتاب کے طلوع کا مثردہ سنانے والاتھا ۔ دنیائے علم وادب کاآفتاب وماہتاب بیسویں صدی کی تابناکی اوردرخشانی کے بعد یکایک غروب ہوگیا اور علم ودین کے ایوانِ شریعت میں اندھیرا چھاگیااور گلستانِ امام المتکلمین، صدر المدرسین حضرت مولانا عبدالحلیم زروبوی رحمہ اللہ کے آخری سَدا بہار،گل سرسبد مُرجھا گیا یعنی حضرت مولانا محمد ابراہیم فانی صاحب ، جو دارالعلوم حقانیہ کے محفلِ دوشین کا وہ چراغِ سحر جو پچھلے چارسالوں سے حوادثات وانقلاباتِ زمانہ کے جھونکوں سے بجھ بجھ کربھی ٹمٹما رہا تھا اور بزبان حال فرمارہے تھے کہ ؎ کوئی دم کا مہمان ہوں اے اہل محفل چراغِ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں بالآخر ربیع الثانی ۱۴۳۵ھ کے آخری ہفتہ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خموش ہوگیا۔ اوراب علم وتحقیق کا عالم اُجڑ اجڑا ساہے ۔ دفاعِ دین اور ادب وتنقید کی رزم گاہوں میں سکوت مرگ ساطاری ہوگیا ہے ۔ ہم کو دعویٰ خودستائی کا نہیں فانی ؔمگر ملتے ہے دنیا میں ہم جیسے قلندر خال خال ____________________________ * متخصص دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک