ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
مولانا محمد عمران ولی * وصال ودید پر فانیؔ نہ اترا… 26فروری 2014ء کی صبح فجر کی نماز کے بعد اتفاقاً آنکھ لگ گئی ،خواب میں بے انتہا رویا،اور جب بیدار ہوا تو لبوںپر بوجھل اوراداس دل کے ساتھ پشتو کا یہ مصرعہ جاری تھا: پہ خوب اودہ اوخکے مِ راغلے خدایہ حٔما پہ برخہ ئے سہ لیکلی دینہ اسی سوچ اور فکر میں غلطاں کہ صوابی سے برادرم مولانا محمد شفیع صاحب کا ٹیلی فون آنے لگا ،اور لمحوں میں انہوں نے یہ روح فرسا خبر سنادی کہ ’’فانی صاحب کا انتقال ہوچکا ہے‘‘اناللہ و انا الیہ راجعون بے اختیار لبوں پر مچل گیا: مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کی جبین پر مرقوم تیرا نام ہے کچھ ہوکے رہے گا جامعہ حقانیہ کے سینئر استاذ ،ادیب ِلبیب،شاعر بے بدل،حضرت صدرالمدرسین کے لختِ جگر اور جانشین ،ہمارے مشفق ومحترم ومکرم حضرت مولانامحمد ابراہیم فانی صاحب رحمہ اللہ کی یک لخت جدائی اور اچانک جانب ملکِ عدم روانگی کا سن کر مبہوت وحیرت زدہ رہ گیا ،تصور میں نہ تھا کہ اس قدراچانک جدائی ہوجا ئیگی اور ہم حضرت فانی نور اللہ مرقدہ سے محروم ہوجائیں گے ،مگر فانی علیہ الرحمۃ نے خود ہی فرمادیاتھا: وصال و دید پر فانی نہ اترا یہ عرصہ مختصر ہے سوچ لینا اور واقعی ایساہی ہوا ،وصال کا عرصہ لمحوں میں ختم ہوگیا: وصل کے دن بہت اداس تھا میں آنے والی جدائی کا غم تھا والدِ محترم حضرت مفتی محمد ولی درویش رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت فانی علیہ الرحمہ کاآپس میں دیرینہ تعلق اور قلبی محبت تھی اور یہ سلسلہ یقینا جانبین سے تھا،دونوں حضرات اپنی ظرافتِ طبع ،بذلہ سنجی اور میدانِ شعر وشاعری کے منجھے ہوئے شہسوار ہونے کی وجہ سے یک جان و دو قالب تھے ،حضرت فانی صاحب کے تو کئی شعری مجموعے منصہ شہود پر جلوہ گرہوکر دادِ تحسین حاصل کر چکے ہیں ،اور نہ جانے کتنے ایسے مجموعے اور ہونگے جو انکی حیات ِفانی ___________________________ * بن مفتی محمد ولی درویشؔ ؒ،استاد حدیث جامعۃ العلوم الاسلامیۃعلامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کراچی۔