ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
جناب عابد ودود ‘لندن فنا کے ہاتھ میں تحلیل ہورہی ہے حیات بھلانا چاہوں تواس کو بھلا نہیں سکتا میں اپنے آپ کو خود سے چُرا نہیں سکتا فنا کے ہاتھ میں تحلیل ہورہی ہے حیات میں خواب ہوں کہ حقیقت بتانہیں سکتا شگفتگی کا ہے موسم مگر ستم یہ ہے کہ دشت روح میں اک گل کھلا نہیں سکتا یہ میرے ہاتھ تو دیکھو میرے ستارہ شناس انہیں دعا کے لئے کیوں اٹھا نہیں سکتا یہ حکم ہے مرے روشن ضمیر منصف کا کہ گھر میں بھی کوئی شمع جلا نہیں سکتا وہ آندھیوں سے بھلا کیا مقابلہ کرلے دئیے کی لو جو ہوا سے بچا نہیں سکتا ہو میرے ہونٹوں پہ اک بات، دوسری دل میں میرا ضمیر یہ تہمت اٹھا نہیں سکتا