ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
محمد زین العابدین * اخبارات میں تعزیتی شذرات روزنامہ اسلام : ملک کے ممتاز دِینی اِدارہ دارُالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے اُستاذ الحدیث، معروف عالمِ دین، شاعر اور ادِیب مولانا محمد ابراہیم فانی بدھ کی صبح پشاور میں مختصر علالت کے بعد انتقال کرگئے۔ انا اللہ و انا الیہ راجعون۔ اُن کی نمازِ جنازہ مولانا انوار الحق نے پڑھائی، جس میں علماء کرام، طلبائ، سیاسی و مذہبی شخصیات اور عمائدین ِعلاقہ نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ اس موقع پر دارُ العلوم حقانیہ کے شیخ الحدیث مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ نے مرحوم کی علمی خدمات کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ بعد ازاں اُنہیں سینکڑوں سوگواروں کی موجودگی میں سپرد ِخاک کردیا گیا۔ مولانا محمد ابراہیم فانی ایک قابل و تجربہ کار مدرّس اور دِینی حلقوں کے جانے پہچانے شاعر اور ادِیب بھی تھے۔ اُن کا کلام ملک کے مؤقر دِینی جرائد میں شائع ہوتا تھا اور وہ بیک وقت عربی، فارسی، اُردو اور پشتو کے قادِر الکلام شاعر تھے۔ مولانا فانی کے متعد ّد شعری مجموعے چھپ چکے ہیں اور سوانح نگاری میں بھی اُن کا ایک نام تھا۔ مولانا فانی کی رحلت ملک کے دینی و علمی حلقوں کے لیے ایک بڑا سانحہ ہے، اُن کی علمی و ادبی خدمات کو تادیر یاد رکھا جائے گا۔ مولانا محمد ابراہیم فانی نے پوری زندگی اِسلامی علوم و فنون کی تدریس کی اور اپنی خداداد صلاحیتوں اور محنت و لگن کے باعث دارُ العلوم حقانیہ جیسے ممتاز دینی اِدارے کی مسند ِحدیث پر فائز ہونے کا شرف حاصل کیا۔ اللہ تعالیٰ مولانا محمد ابراہیم فانی کی مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبر ِجمیل عطا فرمائے۔ (روزنامہ اسلام کراچی ۲۷؍ فروری ۲۰۱۴ئ) روزنامہ آج : آبائی گاؤں زروبی صوابی میں سپردِ خاک، نمازِ جنازہ میں ہزاروں افراد کی شرکت ملک کے ممتاز عالمِ دین اور دارُالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے مدرّس مولانا محمد ابراہیم فانی مختصر علالت کے بعد اِنتقال کرگئے۔ اُن کی نمازِ جنازہ بدھ کے روز دارُ العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک اور بعد ازاں سہ پہر تین بجے موضع زروبی ضلع صوابی میں ادا کی گئی، جس میں جید علماء کرام، ہزاروں شاگرد، سیاسی و مذہبی شخصیات، عمائدین ِعلاقہ اور دوست و احباب نے ہزاروں کی تعداد میں شرکت کی۔ مرحوم کے والد ِمحترم مولانا عبد الحلیم مرحوم بھی دارُالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے مدرس رہ چکے ہیں، وہ فاضل دیوبند اور جیّد عالمِ دین تھے، مولانا محمد ابراہیم فانی عالمِ دین ہونے کے علاوہ ایک مفکر، دانش ور، ادیب اور شاعر بھی تھے، اُنہیں چار زبانوں عربی، فارسی اور پشتو پر روانی سے عبور حاصل تھا۔ جب کہ اُنہوں نے اِن زبانوں میں کئی دینی کتابیں بھی تحریر کی ہیں مرحوم نے اپنے پیچھے دو بیٹے، ایک بیٹی اور بیوہ سوگوار چھوڑے ہیں۔ جب کہ محمد اسمٰعیل اور عبد الحفیظ ان کے بھائی تھے۔ ______________________________ (روزنامہ آج پشاور ۲۷؍ فروری *مدرس مدرسہ امام ابو یوسف کراچی