ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
الرسول کا درس دیا‘ جو سرتاپا علم و عمل کا مجسمہ اورسنت نبوی ا کی عملی تصویر تھے‘ جس کے فقیرانہ دربار میں متحبرعلماء اس کے علمی ہیبت کی وجہ سے گنگ رہتے‘ بڑے بڑے جاگیردار‘ خان اور نواب اس کے سامنے سرنگوں رہتے‘ حق بات کہنے میں بلاخوف لومۃ لائم نہ تردد کرتے اورنہ کسی قسم کی مصالحت کے روادار تھے۔ حضرت فانی صاحب مرحوم کی رگوں میں وہی خون دوڑتا نظر آیا اور وہی موروثی اثرات بدرجہ اتم ان کو منتقل ہوئے۔ فانی صاحب سے قلبی محبت و عقیدت: حضرت مولانا ابراہیم فانی صاحب مرحوم اگرچہ عمر کے لحاظ سے مجھ سے بڑے تھے لیکن دونوں علمی خاندان ہونے کے ناطے بچپن سے ایک دوسرے سے قریب تر ہوتے گئے اوراس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ میرے والد ماجد مولانا فضل حق مرحوم اورحضرت صدر صاحب نوراللہ مرقدھما کے قریبی مراسم تھے۔ تقریباً ۱۹۶۸ء سے میرے والد صاحب مرحوم بستر علالت پر تھے۔ جب صدر صاحب مرحوم جمعۃ المبارک کو گائوں تشریف لاتے تو ضرور میرے والد صاحب مرحوم کے پاس تیمارداری کے لئے تشریف لاتے۔ اس وقت اگرچہ میں کم عمر تھا لیکن آج بھی حضرت صدر صاحب مرحوم کے مخصوص لہجہ میں آواز جو دروازے پہ کھڑے ہوکر ’’فضل علی‘‘ پکارتے‘ کانوں میں گونج رہی ہے۔ حضرت مرحوم تشریف لانے کے بعد دیر تک والد صاحب مرحوم سے مختلف موضوعات پر گفتگو فرماتے جب والد مرحوم اپنی زیست سے ناامید ہونے لگے تو حضرت صدر صاحب مرحوم کو بلا کر وصیت فرمائی کہ مجھے زندگی کی اب امید نہیں رہی اور یہ بیٹا اللہ تعالیٰ کو اور آپ کے سپرد کرتا ہوں اس کی تعلیم و تربیت کا خاص خیال آپ رکھیں گے۔ حضرت صدرصاحب نے اسی وصیت کی لاج رکھتے ہوئے زندگی کے ہرموڑ پر مکمل سرپرستی فرمائی اور میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد مجھے دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں اپنی سرپرستی میں داخلہ دلوایا۔ حضرت صدر صاحب نے ہمیشہ اپنے نسبی بیٹوں سے زیادہ شفقت فرمائی فرحمہ اللہ تعالیٰ رحمۃ واسعۃ۔ اسی تعلق کی وجہ سے فانی صاحب مرحوم سے بھی مراسم بڑھ گئے ۔ گائوں کے ماحول میں رسومات اوربدعات کی مخالفت ہو یا قادیانیوں ‘پرویزیوں کاتعاقب ہو یا فرقہ واریت کی عفریت سے مخاصمت ہو۔ الغرض تمام تحریکوں میں ہم دونوں یک جاں دوقالب کی طرح میدان میں کھودتے رہے ہیں اور الحمدللہ سرخرو ہوئے۔یہ داستانیں ایک کامل کتاب کے متقاضی ہیں۔ فقیری میں بادشاہی: حضرت فانی صاحب مرحوم دیگر بہت سارے خوبیوں سمیت فقیرمنش اوردرویش صفت انسان تھے۔ ان کی نشست وبرخاست ‘ گفتار وکردار انتہائی سادہ مگر پروقار تھی۔ کبھی بھی اپنے علمی تفوق کو ہم عصروں کی محفل میں آشکارہ کرنے کی کوشش نہیںکی بلکہ ظاہری وضعداری اورشان وشوکت بنانے سے بہت دور تھے جبکہ اجنبی شخص پر آپ کا علمی