ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
مدینہ منورہ کی ہوا: اتنے میں صاحب زادہ محترم حضرت مولانا راشد الحق حقانی مدیرماہنامہ’’الحق‘‘ کا مدینہ منورہ کی مقدس ہوائوں سے فون آیا اور فانی صاحب کو کہاکہ میں یہاں مدینہ منورہ میں ہوں‘ اور آپ کے لئے دعائیں کررہا ہوں۔ روضہ رسول اللہا پر سلام میں پیش کررہا ہوں‘ اس پر فانی صاحب بہت آبدیدہ ہوئے اور بے اختیار ان کی آنکھوں میں آنسوئوں کا سیلاب امڈ آیا اورپرکیف انداز میں اپنے عشقیہ اشعار کہے : جہاں صلے علی کی بات ہوگی محمد مصطفی ؐ کی بات ہوگی اگرموج صبا کی بات ہوگی مدینہ کی ہوا کی بات ہوگی فون پر گفتگو کرکے بتایا کہ مولانا صاحبزادہ راشد الحق حقانی ہمارے شیخ مولانا سمیع الحق صاحب کے انتہائی ہونہار اور وضع دار فرزند ہیں اور حضرت مولانا بھی ان کا بہت احترام کرتے ہیں۔ میرا تو زمانوں سے ان کے ساتھ علمی اور روحانی تعلق ہے اورمدرسہ میں مجھے جب کوئی مسئلہ درپیش آئے تو سب سے پہلے اِن کے سامنے رکھتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت سی صفات ‘کمالات اور خصوصی انعامات سے نوازا ہے۔ ہرسال ان کو حج مع عمرہ نصیب ہوتاہے۔ سربوقت ذبحہ اپنا ان کے زیرپائے ہے یہ نصیب اللہ اکبر لُوٹنے کی جائے ہے اللہ تعالیٰ ان کومزید ترقی سے نوازے جامی و شیخ نقشبند کے اشعار کاتذکرہ: مدینہ منورہ کی یاد سے مولانا جامی کا شعر یاد آگیا کہ بود یارب کہ رو در یثرب بطحہ کنم گاہ بہ مکہ منزل درگا مدینہ جاکنم اور چونکہ بستر مرگ پر لیٹا ہوں نہ جانے کس وقت زندگی کی شام ہوجائے ۔شاعر نے کیا خوب کہا ہے : اُجالے اپنی یادوں کے ہمارے پاس رہنے دو نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہوجائے ایک اور شعر یاد آگیا جو غالباً بہائو الدین نقشبند کا ہے جوانہوں نے مشہور مناجات میں لکھا ہے ۔ چار چیز اور دَہ اَم شاہا کہ در گنجے تونیست عاجزی وہ بے کسی عذر و گناہ اور دہ ام اوراس موقع پر بحمدللہ مجھے علامہ اقبال کاآفاقی اورعالمگیر قطعہ یاد آیا۔ وہ فرماتے ہیں گر تو میں خواہی گنا ہم ناگزیر از نگاہ مصطفی پنہاں بگیر (جاری ہے)